اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

836,562FansLike
9,977FollowersFollow
559,500FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

’’جو سننا تھا سن لیا جو دیکھنا تھا دیکھ لیا‘‘ سماعت مکمل، سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے کا اعلان کر دیا

اسلام آباد: پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت مکمل ، عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ تفصیلات کے مطابق پانامہ عملدرآمد کیس کی 5روز جاری رہنے والی سماعت اختتام کو پہنچ گئی ہے اور عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے جو سننا تھا سن لیا جو دیکھنا تھا دیکھ لیااب ہم فیصلہ سنائیں گے ۔ واضح رہے کہ عدالت نے فیصلہ سنائے جانے کے حوالے سے کسی تاریخ کا تو اعلان نہیں کیا تاہم امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ 30دن کے اندر اندر سپریم کورٹ اس حوالے سے اپنا فیصلہ سنا دے گی
۔قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پیر والے دن سپریم کورٹ فیصلہ سنا دے گی ۔ سپریم کورٹ نے پاناما عمل در آمد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے پاناما عمل درآمد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران شریف خاندان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا اپنے دلائل میں کہا ہے کہ کل کی سماعت میں نیلسن اور نیسکول کے ٹرسٹ ڈیڈ پربات ہوئی تھی، عدالت کے ریمارکس تھے کہ بادی النظرمیں یہ جعلسازی کا کیس ہے اور اسی حوالے سے میں نے کل کہا تھا اس کی وضاحت ہوگی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ یہ تو ہم بھی دیکھ سکتے ہیں کہ دستخط کیسے مختلف ہیں جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اکرم شیخ نے کل کہا ہے کہ غلطی سے یہ صفحات لگ گئے تھے، یہ صرف ایک کلریکل غلطی تھی اکرم شیخ کے چیمبر سے ہوئی، کسی بھی صورت میں جعلی دستاویز دینے کی نیت نہیں تھی، ماہرین نے غلطی والی دستاویزات کا جائزہ لیا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مسئلہ صرف فونٹ کا رہ گیا ہے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ دوسرا معاملہ چھٹی کے روز نوٹری تصدیق کا ہے، لندن میں بہت سے سولیسٹر ہفتہ بلکہ اتوار کو بھی کھلتے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز سے پوچھا گیا کہ چھٹی کے روز ملاقات ہوسکتی ہے، حسین نواز نے کہا تھا کہ چھٹی کے روز اپائنٹمنٹ نہیں ہوسکتی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عام سوال کیا جائے تو جواب مختلف ہوگا مخصوص سوال نہیں کیا گیا۔
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ کاوالیم 10 بھی منگوا لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دسویں جلد میں جے آئی ٹی کے خطوط کی تفصیل ہوگی اور دسویں جلد سے بہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی جس کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ کاسربمہر والیم 10 عدالت میں پیش کردیا گیا، والیم 10 کی سیل عدالت میں کھول دی گئی اورعدالت نے والیم 10 کا جائزہ بھی لیا جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ خواجہ صاحب یہ والیم آپکی درخواست پر کھولا جارہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا دستاویزات میں متعلقہ نوٹری پبلک کی تفصیل ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حسین نواز کا اکثر سولیسٹر سے رابطہ رہتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز نے نہیں کیا کہ انکا رابطہ سولیسٹر سے رہتا ہے، ان دستاویزات پر کسی کے دستخط بھی نہیں، کل عدالت کو بی وی آئی کا 16 جون کا خط موصول ہوا۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آج سلمان اکرم راجہ نے اچھی تیاری کی، عدالت نے خواجہ حارث کو والیم 10 کی مخصوص دستاویز پڑھنے کو دے دی تاہم عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ ابھی والیم 10 کسی کو نہیں دکھائیں گے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ 23 جون کو جے آئی ٹی نے خط لکھا، جواب میں اٹارنی جنرل بی وی آئی نے خط لکھا۔ جسٹس اعجازافضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریفرنس نیب کو بھجوا دیا جائے جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میرا جواب ہے کہ کیس مزید تحقیقات کا ہے، خطوط کو بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے لیکن تسلیم نہیں کیا جا سکتا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ شواہد کو تسلیم کرنا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کل پوچھا تھا کیا قطری شواہد دینے کے لیے تیارہے جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کی جانب سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کل عدالت نے کہا تھا کہ قطری نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے انکارکیا، میں نے تمام قطری خطوط کا جائزہ لیا جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کل جسٹس عظمت سعید نے پوچھا تھا کہ کیا آج قطری پیش ہونے کوتیارہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کوویڈیو لنک کی پیشکش نہیں کی گئی، سال 2004 تک حسین اور حسن کو سرمایہ ان کے دادا دیتے رہے، اگر بیٹا اثاثے ثابت نہ کر سکے تو ذمہ داری والدین پر نہیں آ سکتی جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کی آمدن اثاثوں کے مطابق نہ ہو تو کیا ہوگا، پبلک آفس ہولڈر نے اسمبلی میں کہا یہ ہیں وہ ذرائع جن سے فلیٹس خریدے، جس کے بعد وزیراعظم نے کچھ مشکوک دستاویزات سپیکر کو دیں، ہم ایک سال سے ان دستاویزات کا انتظار کر رہے ہیں، یہاں معاملہ عوامی عہدہ رکھنے والے کا ہے، وہ اپنے عہدے کے باعث جواب دہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عوامی عہدہ رکھنے والے نے قومی اسمبلی اور قوم سے خطاب کیا تھا، خطاب میں کہا تھا بچوں کے کاروبار کے تمام ثبوت موجود ہیں اور ہم ایک سال سے ان ثبوتوں کا انتظار کررہے ہیں، رپورٹ میں مریم کے بینیفیشل مالک ہونے کا کہا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کی کمپنیوں کا بینیفیشل مالک ہونا کیپٹن صفدر کے گوشواروں میں ظاہر نہیں ہوتا، اگر عدالت اس نتیجے پر پہنچی کہ گوشواروں میں ملکیت کاذکر نہیں تو عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو ہو گا جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ لاگو کرنے کے لیے باقاعدہ قانونی عمل درکارہو گا، جے آئی ٹی کو ایرول جارج نے اپنے جواب میں 2012جون کی صورتحال کی تصدیق کی اور ایرول جارج کے بیان میں کوئی نئی بات نہیں۔ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن کے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ اپنے جواب میں عدالتی تحفظات دور کرنے کی کوشش کی ہے، عدالت میں دو جواب داخل کرائے ہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے دائرے میں رہ کر لہروں کے خلاف بھی تیرنا ہو تو تیر لیں گے۔ سماعت کے دوران طارق حسن کی جانب سے اسحاق ڈار کا 34 سالہ ریکارڈ سر بمہر پیش کیا گیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ ڈبہ اب سارا دن ٹی وی کی زینت بنے گا جس پر طارق حسن نے کہا کہ سنا ہے جے آئی ٹی نے بھی ایسے ہی ڈبے پیش کیے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ بھی شواہد کے ڈبے دے کر جے آئی ٹی کی پیروی کر رہے ہیں جس پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔
جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے اثاثوں میں اضافے کا کہا ،اسحاق ڈاراس کا جواب نہ دے سکے، اس سے ہو سکتا ہے اسحاق ڈار کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے، حدیبیہ پیپر ملزکیس میں آپ شامل تھے، حدیبیہ پیپر ملز کیس کے خارج ہونے کو تسلیم کر لیں توبھی اسحاق ڈار کے خلاف کافی موادہے، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ آج اسحاق ڈار کا ٹیکس ریکارڈ موجود ہیں جس پراسحاق ڈارکے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنے طورپرمکمل بد نیتی ظاہر کی، تین ذرائع سے یہ ریکارڈ جمع کیا جس پر جسٹس اعجاز احسن نے ریمارکس دیئے کہ اثاثے پانچ سال میں 9 ملین سے بڑھ کر835 ملین ہوگئے، بتائیں کہ شیخ النیہان نے کن شرائط پر اسحاق ڈار سے معاہدہ کیا جس پرطارق حسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسحاق ڈارصرف سیاستدان نہیں پروفیشنل اکاؤنٹنٹ بھی ہیں، اگر پاکستان میں دو لاکھ کماؤں اورباہرجا کرکمائی دس گنا بڑھ جائے تو کیا یہ غلط ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ صرف دو لاکھ سالانہ کماتے ہیں تو پھر پیشہ چھوڑ دیں، جس پرطارق حسن نے کہا کہ سیاست میں آنے کے بعد کئی بار اسحاق ڈار کے اکاؤنٹس کی پڑتال کی گئی، آج تک اسحاق دار کے خلاف کچھ نہیں نکلا۔ طارق حسن نے اسحاق ڈار کے ٹیکس جمع کرانے پرلمبے دلائل شروع کیے تو جسٹس اعجاز افضل نے روکتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ سماعت ہمیشہ ہی چلتی رہے جس پر عدالت میں ایک بار پھر قہقہہ گونج اٹھا۔
طارق حسن نے کہا کہ ریکارڈ کے بغیر جے آئی ٹی کیسے اسحاق ڈار کے خلاف کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے، بلاوجہ کے احتساب میں گھسیٹنا قبول نہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگر یہ ڈرامائی کہانی ہے تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ کہانی ڈرامے کی طرح ختم ہو، جو تحریری جواب آپ نے دیا ہے یقین رکھیں اس کا جائزہ لیا جائے گا، تحریری جواب سے ہٹ کر دلائل ہیں تودیں ہم سنیں گے۔
طارق حسن ایڈوکیٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی میں بطور گواہ گیا تھا لیکن یہاں لگتا ہے ملزم ہوں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے جو کیا وہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے باعث کیا، جے آئی ٹی نے جو کیا وہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے باعث کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے نیب اور ایف آئی اے سے ملنے والی دستاویزات کا جائزہ لینا تھا، جے آئی ٹی میں آپ نے اپنی کمائی اور براک ہولڈنگ کی تفصیلات فراہم نہیں کیں، سمجھ نہیں آتا کہ اسحاق ڈار نے کس بات کا استحقاق مانگا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا تحریری جواب دیا، تسلی رکھیں ہر وکیل کے ہر جواب کی ہر سطر پڑھیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار کا بیٹا بیرون ملک کمپنی سے باپ کو پیسے بھیجتا رہا، اسحاق ڈار کا اپنے بیٹے سے پیسے لینا ٹیکس بچانے کے لیے تھا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ ماضی کی طرح شریف خاندان کے خلاف دوبارہ گواہ بننا چاہتے ہیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں میں 800 ملین کا اضافہ ہوا، اسحاق ڈار نے بیٹے کو کمپنی ہل میٹل کے فنڈز دئیے، بیٹے نے وہی رقم باپ کو تحفے میں بھیج دی، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ مسٹر طارق حسن کم از کم آپ تو اپنے موکل سے انصاف کر لیں، آپ انصاف کرلیں اورہمیں بھی اسحاق ڈارسے انصاف کرنے دیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم یہ کہہ دیں کہ آپ کے دلائل سن کر اطمینان ہوا، دونوں فریقین سن لیں اس کیس میں ہم قانون سے باہر نہیں جائیں گے، سب کے بنیادی حقوق کا احساس ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ فریقین ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں، ہمیں کچھ نہ کہیں، کیس ختم ہو جائے گا، آپ چلے جائیں گے مگر ہمارا کام جاری رہے گا، بہت زیادہ تفصیل دینا بھی کیس کو برباد کر دیتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت تک کیس سنیں گے جب تک کہ آپ تھک نہ جائیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جس چیز کی آئین اور قانون نے اجازت نہیں دی وہ نہیں کریں گے، انصاف کے تقاضے پورے کرنا تھے اسی لیے کیس کو روزانہ سنا۔ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن کے دلائل مکمل کرلیے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ وفاق کا موقف ہے کہ عدالت نے 5 ماہ کیس سنا،ہر فریق کو مناسب موقع دیا گیا، تحقیقات میں نیا ریکارڈ بھی سامنے آیا، مجھے یقین ہے کہ عدالت فریقین کے حقوق کا خیال رکھے گی، جے آئی ٹی کی فائنڈنگز عدالت پر لازم نہیں۔ عدالت نے عدالت نے اٹارنی جنرل کو آج ہی اپنا تحریری جواب جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عدالت شفافیت اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھے۔
سماعت کے دوران نیب کے وکیل چوہدری اکبر تارڑ نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب نے حدیبیہ کیس کھولنے کا فیصلہ کر لیا، ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے سوچ لیا تو یہ سوچ تحریری شکل میں کب آئے گی جس پر چوہدری اکبر تارڑ نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے جواب الجواب میں کہا کہ ثابت ہوگیا وزیراعظم صادق اورامین نہیں، ایف زیڈ ای کمپنی کو وزیراعظم نے ظاہر نہیں کیا، ایف زیڈای کمپنی کا چیئرمین ہونا اور تنخواہ وصولی ظاہر نہیں کی گئی جس پرجسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان کا کہناہے کہ وزیر اعظم نے تنخواہ نہیں لی جس پر جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ تنخواہ لینے اور نہ لینے کے اثرات علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ یہ حقیقت ہے کہ اگر اثاثے ظاہر نہ کیے گئے تو بددیانتی کہلائے گی، سوال یہ ہے کہ یہ ہمارا دائرہ اختیارہو گا یا الیکشن کمیشن کا ہوگا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ تقریر میں وزیر اعظم نے گلف سٹیل مل 33 ملین درہم کی فروخت کرنے کا کہا جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بی سی سی آئی رقم شامل کرنے پر 33 ملین کی ہی بنتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ بقایا جات ادائیگی کے بعد سرمایہ کاری کے لیے کچھ نہیں بچا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ شہباز شریف نے 1980 کے سیل معاہدے کو تسلیم نہیں کیا، سعودی عزیزیہ مل 63 ملین میں فروخت کرنے کا کہا گیا، اس حوالے سے بھی 20 ملین کم ہیں، وزیراعظم نے سعودیہ مل کی فروخت سے لندن فلیٹس خریداری کا کہا، حسن نے 2001 میں کاروبار شروع کیا جبکہ عزیزیہ 2005 میں فروخت ہوئی، وزیراعظم کو ہل میٹل اور حسین نواز سے تحائف آ رہے ہیں، 1980 میں شہبازشریف نے خود کو کاروبار سے الگ کیا، طارق شفیع شہباز شریف کے نمائندے بنے رہے، جدہ مل کی 20 ملین رقم واجب الادا تھی، گلف سٹیل مل کی فروخت بارے بھی غلط بیانی کی گئی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا کسی پبلک آفس ہولڈر کے ملازمت کرنے پر پابندی ہے جس پر نعیم بخاری نے کہا جی بالکل ہے، پبلک آفس ہولڈر کی ملازمت مفادات کا ٹکراوٴ ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ امریکا سے بھی وزیر اعظم کو شیخ سعید نامی شخص سے 10 ملین ملے، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں پابندی ججز کی دوسری ملازمت کے لیے ہے ،کسی دوسرے آفس ہولڈر کے لیے نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کی کسی دوسری ملازمت پر پابندی ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں وزیر اعظم کی کسی دوسری ملازمت بارے کچھ نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ سوال یہ ہے جو چیزیں درخواست میں نہیں کیا ہمیں ان پر جانا چاہیے، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو تمام معاملات کی جانچ کا کہا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ نئی چیزیں کیس میں شامل کر کے فریقین کو سرپرائز دیا جا سکتاہے، یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ بار ثبوت شریف خاندان پرہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ فیملی سیٹلمنٹ کے وقت93ء سے زیر استعمال فلیٹس زیر بحث نہیں آئے، قطری خطوط نکال دیں تو 1993-96 سے لندن فلیٹس نواز شریف کی ملکیت بنتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری سپریڈ شیٹ تو نہ ادھر کی ہے نہ ادھر کی جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ بہترین وضاحت یہ ہوتی کہ فلیٹ میاں شریف نے خریدے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ اگر ہم مان لیں کہ فلیٹس کی مالک مریم ہیں اور مریم نواز شریف کی زیر کفالت ہیں تو، اثاثے ظاہر کرنے پر ہی وزیر اعظم کی نااہلی بارے فیصلہ دیا جا سکتا ہے، اگر زیر کفالت ثابت نہ ہو توصرف مریم کا فلیٹ کا مالک ہونا کافی نہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی بنی تو سب نے کہا کہ جے آئی ٹی کا کام آزادانہ ہو گا، جے آئی ٹی نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا، اگرہم نے ٹرائل سے متعلق فیصلہ دیا تو یہ فیئر ٹرائل ہو گا جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے جن حالات میں کام کیا قابل تحسین ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کو بینیفشل مالک تسلیم کر بھی لیں تو زیر کفالت کا معاملہ آئے گا، درخواست میں آپ نے مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کا کہا تھا، درخواست میں آپ نے مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کا کہا تھا، مریم نواز کے زیر کفالت ہونے کے واضع شواہد نہیں ملے جس پر نعیم بخاری نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں وزیر اعظم عہدے پر رہنے کے قابل نہیں رہے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نےجوابی دلائل میں کہا کہ عظیم ججز کے سامنے پیش ہواہوں، جے آئی ٹی کے سپر سکس نے ثابت کر دیا کہ پاکستان رہنے کے قابل ملک ہے، قوموں کی تقدیربدلنے کے لیے ایسے ہی افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے، عدالت نے قطری کی سرمایہ کاری کا پوچھا،جواب نہ آیا، شریف خاندان نے 13 سوالوں کے جواب بھی نہ دیئے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر مٹھائیاں بانٹیں گئیں، لگتا ہے میری طرح ان کی انگریزی بھی کمزور ہے، جے آئی ٹی والوں کو وزیر اعظم نے کل اپنی تقریر میں دھمکایاہے، وزیراعظم نے کل جے آئی ٹی بارے الفاظ استعمال کر کے عدالت کی توہین کی۔
شیخ رشید نے اپنے جواب میں کہا کہ اسلام آباد صادق اورامین گلوبل تصورہوتا ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ لاہورمیں صادق اوراسلام آباد میں کرپٹ ہوں، جس کی طرف دیکھو بے نامی دار ہیں، شریف فیملی پاناما سے اقامہ تک پہنچ گئی، وزیراعظم نے تو دبئی والوں کو بھی چونا لگایا، اکامہ لیتے وقت دبئی والوں کو نہیں بتایا کہ میں پاکستان کا وزیراعظم ہوں، آج ڈبہ لے آئے ہیں میں تو ایسے ڈبے میں چندہ ڈالتا ہوں، منی ٹریل مانگ مانگ کرعدالت تھک گئی، یہاں تک کہا گیا لاؤ منی ٹریل، کلین چٹ دے دیں، اگر ان کو اکامے پسند ہیں تو وہاں چلے جائیں، ہماری جان چھوڑدیں، وزیراعظم دوبئی میں مارکیٹنگ مینیجر ہیں، لگتا ہے قطری کو بھی خط ڈالنے کی عادت ہو گئی ہے، میرا کیس 62,63 کا ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ قطری خط نکال دیں تو ان کے پاس رہ کیا جاتا ہے، میں نمازوں میں دعا مانگتا ہوں یا اللہ شیخ عظمت سعید بیمار نہ ہو جائیں، نواز شریف نے اپنے بچوں کے بیانات تسلیم کر کے اچھی بات کی ہم کوئی بھکاری ملک نہیں جب کہ جے آئی ٹی نے قطری کو کہا یہاں آجائیں انہیں سلیوٹ کرتاہوں۔ شیخ رشید نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف پر منی لا نڈرنگ، کسٹم ایکٹ، فارن ایکسچینج ایکٹ اور امپورٹ ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ لگایا جائے جس پر جسٹس عظمت نے استفسار کیا کہ شیخ رشید صاحب آپ کہیں موٹر وہیکل ایکٹ نہ لگا دیں۔
جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے جواب میں کہا کہ جے آئی ٹی کی سفارشات کے بعد تمام شکوک و شبہات دورہو چکے ہیں، دو ججز پہلے ہی نااہلی کا فیصلہ دے چکے ہیں، عدالت نے نواز شریف کی نا اہلی کا جائزہ لینے کا حکم دیاتھا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت کا حکم تھا،نہ واپس لیا نہ لیں گے، ہم پہلے ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ گارنٹی دیتے ہیں نااہلی کا معاملہ زیرغورلائیں گے۔