اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

842,974FansLike
9,979FollowersFollow
561,200FollowersFollow
181,482SubscribersSubscribe

جمہوریت کے بچے یا بچے جمہورے

1389ء میں سلطنت عثمانیہ اور سربیہ کے درمیان لڑے جانے والی “جنگ کوسوو” اپنے عروج پر تھی، 15جون 1389ء کو اسی جنگ میں عثمانیوں کے تیسرے بادشاہ سلطان مراد اول کو قتل کر دیا گیا، ان کے قتل کے بعد سلطان مراد اول کا بڑا بیٹا با یزید اول سلطان بنا، با یزید اول کے سلطان بننے کے کچھ ہی عرصے کے بعد سربیہ نے ہتھیار ڈال دئیے اورعثمانیوں کی شرائط مان لیں۔سلطان بایزید اول جب فاتح بن کر پایہ تخت پہنچا تو اس نے امور سلطنت سنبھالتے ہی اپنے چھوٹے بھائی شہزادہ یعقوب کے قتل کا پروانہ جاری کر دیا، سلطنت عثمانیہ میں تخت و تاج کے لئیے کیا جانا والا یہ پہلا قتل تھا، عوام ششدر تھی کی سلطان نے اپنے ہی بھائی کو کیوں قتل کروا دیا، لیکن سلطان کو اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ اس سلطنت میں سلطان بننے کے لئیے صلاحیت و قابلیت دوئم جبکہ ترجیحی خصوصیت عثمانی خون ہے اور اگر سلطان کے علاوہ عثمانی خون کا حامل کوئی اور شہزادہ بھی موجود ہوا تو تخت و تاج چھننے کا خوف ہمیشہ سر پہ منڈلاتا رہے گا، اس واقعے کے بعد عثمانی تاریخ اپنے ہی خون سے لکھی گئی اور آنے والے کئی سلطانوں نے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کیا، پایہ تخت سے ایک وقت میں انیس جنازے بھی اٹھے ، اس تمام تر قتال کی بنیادی منطق بھی یہی تھی کہ عوام کے نزدیک سلطان کی شخصیت سے زیادہ سلطان کا خون اہم ہے، چونکہ عوام نے حق حکمرانی صرف عثمانی خون کو دے رکھا ہے اس لئیے اگر سازش ہوئی تو عوام کسی بھی ایسے شخص کو سلطان مان لے گی جس کی رگوں میں عثمانی خون ہو ۔ آنے والے وقت میں یہ سب قیا س آرئیاں سچ بھی ثا بت ہو ئیں تاریخ نے دیکھا کہ سلطان مراد چہارم جیسے سلطان بھی تخت پہ بیٹھے جو کہ کہ سن بلوغت کو بھی نہیں پہنچےتھے، اور سلطان مصطفی جیسے سلطان بھی جو کہ ذہنی لحاظ سے معذور تھے ۔سلطنت عثمانیہ کی طرح باقی تمام ایمپائرز میں بھی اس سے ملتے جلتے ہی قوانین تھے جہاں مخصوص خاندانوں کو حکمرانی کا حق حاصل تھا ، جنگ عظیم اول کے بعد لمبے عرصے تک اپنا عروج دیکھنے والی سلطنت عثمانیہ کا سورج غروب ہو گیا، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باقی ایمپائرز بھی ختم ہوتے گئے ۔ دنیا بھر میں ملک و سلطنت کو چلانے کے لئیے سوشلزم، کیپٹلزم، جیسے نظام اپنائے جانے لگے تا کہ اختیا ر خصو صیات کی بنیا د پر منتقل ہواور اختیار کو عوامی مفاد میں استعمال کیا جا سکےدنیا بھر کی طرح تبدیلی کی لہر برصغیر بھی پہنچی اور 1947ء میں عوام نے انگریز کی بادشاہت ختم کی اور مسلمانوں نے خو ن جگر دے کر پاکستان کی بنیا د رکھی۔ جب پاکستان بنا تو عوامی نمائندوں کو منتخب کرنے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئیے جمہوریت کے نظام کو اپنایا گیا۔ ویسے تو دنیا بھر میں جہاں بھی جمہوریت کو اپنایا گیا وہاں جمہور کی منشاء سے ا قتدار بادشاہت کی بغل سے نکل کر عوام کے ایوانوں میں آن پہنچا لیکن 1947ء سے 2017ء تک پاکستان کو بنے تقریباَََ 70 سال ہو گئے ہیں اور یہاں جمہوریت آج بھی حیرت کی انگلی دانتوں میں دبائَے اس سوچ میں ہے کہ کیا میں بھی جمہوریت ہوں ؟ جی ہاں پاکستان میں عجیب جمہوریت ہے جہاں اقتدار وڈیروں، جا گیرداروں اور سائیوں کے پا س ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ یہاں جمہوریت کے لباس میں بادشاہت ہے جہاں آج بھی اقتدار خون کی بنیاد پر وراثت کی طرح منتقل ہوتا ہے، یہاں آج بھی حکمرانی کا حق بس چند خاندانوں کو حاصل ہے ۔ یہ نسل در نسل غلامی والی ایسی جمہوریت ہےجہاں ہمارے لیڈر مریم نواز، حمزہ شہباز، بلاول بھٹو اور مونس الٰہی جیسے ہیں- یقین کیجئیے ایسی لولی ، لنگڑی اور تعفن زدہ جمہوریت کو دیکھ کر سلطنت عثمانیہ کے وہی اصول یا د آتے ہیں جہا ں خون اہم تھا نہ کہ شخصی خصوصیت و قابلیت ۔تحریر بالا پڑھ کر اہل جمہور شاید یہ ضرورکہیں کہ بھئی یہ کیسی بے تکی بات ہے، بادشاہت کب کی ختم ہو گئی یہاں عوام اپنے نمائندے خود چنتے ہیں کوئی بندوق کے زور پر ووٹ نہیں ڈلواتا اور رہی بات بلاول بھٹو، حمزہ شہباز ، مریم نواز اور مونس الہی کی تو ہاں ٹھیک ہے ان کا تعلق سیاسی خاندان سے ضرور ہے لیکن ان لوگوں نے سیاسی ورک کر کہ اپنی جماعت میں جگہ بنائی ہے اور اسی لئیے لوگ انھیں پسند بھی کرتے ہیں ۔ تو جواباً عرض ہے کہ جناب والا اول بات تو یہ ہے کون مریم نواز؟؟ کون بلاول بھٹو؟؟ جہاں تک مجھے یاد ہے کچھ ہی عرصہ قبل مریم نواز “مریم صفدر” تھیں اور بلاول بھٹو” بلاول زرداری ” کبھی آپ نے اس بارے غور کیا ہے کہ ان لوگوں کو اپنے نام تبدیل کرنے کی کیا ضرورت پڑ گئی ؟حضور والا وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ عوام کے ذہنوں کو بڑی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں انھیں پتا ہے عوام میں حق رائے دہی استعمال کرنے کا مکمل شعور نہیں آیا ہے عوام آج بھی خون کو ہی قابلیت پر ترجیح دیتے ہیں، نواز شریف نے چونکہ محنت کر کے عوام میں اپنا مقام بنا لیا ہے اور اب اقتدار نسل در نسل چلنا ہے تو بہتر ہے مریم صفدر کی بجائے مریم نواز لکھا جائے، اسی طرح چونکہ ذولفقار علی بھٹو اور بے نظیر عوام میں مقبول تھے تو ان کا نام ساتھ لگانے سے اقتدار کا حق بھی حاصل ہو گا اور فین فالونگ میں اضافہ بھی اس لئیے بلاول زرداری بن گئے بلاول بھٹو۔ اور رہی بات ان کے سیا سی ورک کی تو جناب ان لوگوں کو پارٹی میں ورکر کا نہیں بلکہ ولی عہد کا درجہ حاصل ہوتا ہے ورنہ سوچیئے کیا ان سے قابل لوگ پارٹی میں موجود نہیں ہوں گے؟؟ یقیناً ہیں، لیکن جمہوریت کے شہزادوں اور شہزادیوں کا وکھرا مقام ہے، اور ان کی جی حضوری کرنا ہر پارٹی ممبر پر فرض ہوتا ہے، ان کو اگر اردو نہیں آتی تو ضروری ہے انھیں رومن میں تقریر لکھ کر دی جائے اور اگر ان کی شان میں کوئی گستاخی کی تو آپ کو کھڈے لائن لگا دیا جائے گا فرق نہیں پڑتا آپ چاہے چوہدری نثار کی طرح کتنے ہی سنئیر سیاستدان کیوں نہ ہوں۔اب شاید پھر اہل علم کہیں کہ بات تو درست ہے کہ نظام میں خامیاں موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت کو چلنے ہی نہیں دیا گیا، بار بار آمروں نے نظام کی بساط لپیٹی اگر جمہوریت چلتی رہتی تو شاید آج یہ مسئلے مسائل نہ ہوتے۔ تو ادبَ پھر عرض یہ ہے کہ مسئلہ یہاں نظام کا نہیں بلکہ سوچ کا ہے، آپ 1947ء سے لیکر اب تک بننے والے تمام ممبر پارلیمنٹ کی با ئیو گرافی کا جائزہ لے لیجئیے آپ کے علم میں یہ با ت آجائے گی کہ پارلیمنٹ کا حصہ بننے والے زیادہ تر ممبران نسل در نسل اقتدار کی کرسی سے چمٹے ہیں۔ ان سے پہلے ان کے باپ اور دادا بھی اقتدار میں تھے یعنی بار بار مخصوص خاندان ہی اقتدار میں آرہے ہیں اور عوام انھیں خوشدلی سےقبول بھی کر رہی ہے۔دراصل یہی وہ سوچ ہے جو جمہوریت کو بادشاہت میں تبدیل کرتی ہے۔ ہمیں اسی سوچ کو بدلنا ہو گا ۔ ہمیں ووٹ کسی کا خاندان کودیکھ کر نہیں بلکہ اسکی قا بلیت کی بنیاد پردینا ہو گا تبھی جمہوریت کی اصل روح بحال ہو گی نہیں تو جمہوریت کہ یہ بچے جمورے یونہی عوام کے سروں پر تانڈو کرتے رہیں گے۔
نجم الحسن باجوہ