اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

841,609FansLike
9,977FollowersFollow
560,700FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

ٹھٹھرتی سردی میں ننھا کوہ پیما تعلیمی پہاڑ سر کرنے کے لئے کوشاں۔

یہ سوموار کا دن اور 9 جنوری 2018 کی ایک سرد صبح ہے۔ جنوب مغربی چائنہ کے صوبہ یونان میں برف باری اپنے عروج پر ہے۔ لڈیان کاؤنٹی میں صبح کے وقت درجہ حرارت تیس منٹ کے اندر اندر منفی 9 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر گیا۔ (پانی 0 ڈگر ی پر برف بن جاتا ہے) اتنی شدید ٹھنڈ میں کورے کی دبیز تہہ نے رہی سہی ہر چیز کو بھی اپنی آغوش میں لے لیا۔ دور، گارے اور گھاس کی بنی ایک جھونپڑی میں شمعیں اگر چہ گل ہیں لیکن کچھ ہلچل جاری ہے۔ 8 سالہ وانگ فومان جو اپنی بہن اور دادی کے ساتھ رہائش پذیر ہے اسکول جانے کی تیاری میں مگن ہے۔ وانگ چائنہ کے ان 60 ملین بچوں میں شامل ہے جن کے والدین غربت اور پسماندگی کی وجہ سے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔ ایسے بچے یا تو کسی بورڈنگ اسکول میں داخل ہوتے ہیں یا دور گاؤں میں اپنے کسی بوڑھے رشتہ دار کے پاس۔ جبکہ ان کے والدین شہر میں محنت مزدوری کرنے چلے جاتے۔ وانگ کی ماں اس کی پیدائش کے فوراً بعد ہی اسے چھوڑکر چلی گئی۔ والد صاحب دور ایک شہر میں کام کرتے ہیں اور چار مہینے بعد صرف کچھ دن کےلیے چھٹی ملتی ہے۔ اس دوران وانگ اپنی بہن اور دادی کے ساتھ اس جھونپڑی نما گھر میں رہائش پذیر ہے جس کی دیواروں سے بھی پانی رستا ہے۔آج سالانہ امتحان کا پہلا دن ہے۔ صبح سویرے جاگا تو حسب معمول ناشتہ کرنے کےلیے گھر میں کوئی چیز نہیں تھی۔ وانگ نے اپنا بستہ اٹھایا، ایک پرانی، بوسیدہ ہلکی سی جیکٹ پہنی اور نکل پڑا۔ دروازہ کھولتے ہی یخ بستہ ہوا نے اس کا استقبا ل کیا جس سے بدن میں جھر جھری سی طاری ہو گئی اور سر کے بال کھڑے ہو گئے؛ لیکن اسکول جانا ضروری تھا۔ اور اسکول وانگ کے گھر سے 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وانگ نے یہ سارا راستہ ان یخ بستہ برفانی ہواؤں میں پیدل طے کیا۔ تقریباً 2 گھنٹے تک پیدل چلنے کے بعد وہ اسکول پہنچ گیا۔ اس کے سر کے بال اس عرصے میں ٹھنڈ سے جم کر سفید ہو چکے ہیں۔ گال انتہائی سرخ اور ہاتھ سوج چکے ہیں۔ ایک دو جگہ سے ہاتھ پھٹ کر ان میں سے خون رس رہا ہے۔ وانگ کی یہ حالت دیکھ کر اس کے سارے کلاس فیلو ہنسے لگتے ہیں۔ ایک استاد نے یہ منظر کیمرے کی آنکھ میں قید کر لیا۔ اسی حالت میں وانگ نے امتحان دیا اور اس پرچے میں 100 میں سے 99 نمبر حاصل کیے۔ وانگ کے استاد نے سوجھے ہوئے ہاتھوں اور اس کے پرچے کی ایک تصویر لی اور پرنسپل کو دکھا دی۔ذرا سی دیر میں یہ تصویر پرنسپل سے ہوتی ہوئی پورے چائنہ میں پھیل چکی تھی۔ سوشل میڈیا پر ان پیچھے رہ جانے والے بچوں کی حالت زار کے بارے میں ایک بحث شروع ہو چکی تھی۔ میڈیا کی یلغار، لوگ اس بچے کا انٹرویو کرنے کے لے بھاگے چلے آ رہے ہیں، اس کی تصویریں اس کے گھر کی تصویریں اور بچے کے انٹرویوز ہوا کے دوش پر پھیلنے لگے۔ والد کو جب یہ صور تحال پتہ چلی تو وہ گھر پہنچا۔ اس نے اپنے بیٹے کو 5 چائنیز یوان جیب خرچ کے طور پر دیئے۔ بچے نے وہ رقم یہ کہ کر انتہائی احتیاط سے سنبھال لی کہ جب اس کے والدین میں سے کوئی بیمار ہو گا تو یہ رقم اس کے علاج کےلیے کام آئے گی۔یہ کہانی کا صرف ایک پہلو ہے، مگر ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ دیکھیے کتنے جان شکن اور دردناک حالات کے با وجود ایک 8 سالہ بچہ ہمت نہیں ہار رہا۔ اس کے سامنے بھیک مانگنے سے لے کر اور بھی کئی راستے ہوں گے۔ چاہے تو گھر میں ہی ٹھہر جائے، مگر وہ محنت کو اپنا شعار بنا لیتا ہے۔ حالات کے جبر کا سامنا کرتا ہے اور پھر جب اس سے ایک صحافی یہ پوچھتا ہے کہ تم اتنی تکلیفیں برداشت کرکے تعلیم کیوں حاصل کر رہے ہو تو بچہ جواب دیتا ہے کہ مجھے امید ہے ایک دن یہ تعلیم میری زندگی بدل دے گی۔ اور نہ صرف میری بلکہ میں اپنے خاندان کی اس بدحالی کو بھی خوشحالی میں بدل سکوں گا۔ یہ عزم پہاڑوں کے سینے توڑ دیتا ہے کامیابی تو ایک چھوٹی سی بات ہے۔کہانی کا تیسرا پہلو بھی ہے۔ وانگ ایک لمبے عرصے سے وہاں رہائش پذیر ہے اور اسی اسکول میں آتا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی نہ جانے ایسے کتنے دن گزرے ہوں گے یا اس سے بھی سخت۔ کسی نے مگر نوٹس نہیں لیا۔ بہر حال ایک المیہ ہوا اور وہ نظر میں آگیا۔ اب اس کا اسکول اور وہ خود عطیات اور تحفوں کے سیلاب کی زد میں ہے۔میرے اور آپ کے ارد گرد اس جیسے پتہ نہیں کتنے بچے اور ہوں گے جو اپنی ساری بچگانہ خواہشیں دبا کر، نہ جانے کتنی تکلیفیں سہ کر کتنے ہی مشکل حالات میں خاموشی سے زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہونگے۔ کیا ہم ان کی مدد کرنے کےلیے کسی المیے کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں؟ لازمی ہے کہ اس کسمپرسی میں ماں مر جائے تو ہم بچے کی پرورش کا ذمہ لیں گے؟اپنے ارد گرد نطر دوڑائیے۔ اللہ نے آپ کو نوازا ہے تو ایسے بچوں کے دست و بازو بنئے۔ اگر نہیں تو ان کی معلومات آگے بیان کر دیجئے ہو سکتا ہے کوئی اور اس انتظار میں ہو۔
کامران امین