اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

810,173FansLike
9,937FollowersFollow
553,900FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی کی آئین کی رُو سے تعیناتی

سینٹ انتخابات وقت پر ہونے سے تمام غیر جمہوری قیاس آرئیوں نے دم توڑا اور ایک جمہوری عمل کو تقویت ملی۔ جمہوری اور آئینی طریقے سے نئے چئیرمین سینٹ منتخب ہو گئے جس پر بہت سے سیاسی اعتراضات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت کی ہم خیال سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسے جمہوری ناکامی قرار دیا گیا ہے جس سے میں مکمل اختلاف کرتا ہوں کیونکہ سیاست جوڑ توڑ کا نام ہے اور اگر کسی سیاسی فائدے کے لیے اپوزیشن جماعتیں ایک سیاسی ایجنڈے پر متفق ہوتی ہیں اور وہ عمل جمہوری طریقے سے پروان چڑھتا ہے تو اس میں ہی جمہوریت کی بقاء ہے۔خیر بات ہو رہی تھی نو منتخب چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے حوالے سے جن پر سیاسی اختلافات سے ہم اگر آگے بڑھیں اور آئین کی رُو سے انکی تعیناتی کو دیکھیں تو انکے چئیرمین سینٹ منتخب ہونے پر آئینی اختلافات موجود ہیں جو کے انکی عمر کو لے کر سامنے آتا ہے جو بہت سے سوالوں کو جنم دیتا ہے اور وضاحت طلب بھی ہے۔صادق سنجرانی تقریباً چالیس برس کے ہیں۔ یہ سینیٹ کے اب تک کے کم عمر ترین چئیرمین ہیں۔ سابق چئیرمین سینٹ رضا ربانی کی عمرپینسٹھ برس تھی۔ صادق سنجرانی سے قبل کم عمر ترین چئیرمین سینٹ نئیر بخاری تھے جو عمرمیں رضا ربانی سے پانچ ماہ چھوٹے ہیں۔ معمر ترین چئیرمین سینٹ بننے کا اعزاز غلام اسحاق خان کو حاصل ہے جن کی عمر91 برس تھی۔ غلام اسحاق خیبر پختونخوا سے منتخب ہونے والے دوسرے چئیرمین سینٹ تھے، ان سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے حبیب خان خیبر پختونخوا سے چئیرمین سینٹ منتخب ہوئے تھے۔ صادق سنجرانی اور غلام اسحاق میں دو چیزیں مشترک ہیں، ایک یہ کہ وہ چھوٹے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ بھی غلام اسحاق کی طرح آزاد حیثیت سے چئیرمین سینٹ منتخب ہوئے ہیں۔ جبکہ پاکستان کی تاریخ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکلوتے چئیرمین سینٹ وسیم سجاد کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی 3 مرتبہ سندھ سے اپنا چئیرمین سینٹ منتخب کروا چکی ہے اور ایک دفعہ یہ شرف پاکستان مسلم لیگ ق کو حاصل ہوا ہے کہ وہ سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد علی سومرو کو چئیرمین سینٹ منتخب کروا سکے۔تو بات ہو رہی ہے ایوان بالا کے موجودہ سربراہ کی کم عمری کے حوالے سے جوانتہائی اہم معاملہ ہے جسے ابھی تک حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 41 کہتا ہے کہ ـــــکوئی شخص اس وقت تک صدر کی حیثیت سے انتخاب کا اہل نہیں ہو گا جب تک اسکی عمر 45 سال نہ ہو۔اب اس آرٹیکل کے تحت چئیرمین سینٹ کی تعیناتی کو دیکھا جائے تو معاملہ سوالات کو جنم دیتا ہے۔ صدر پاکستان کی غیر موجودگی میں چئیرمین سینٹ قائم مقام صدر کے فرائض انجام دیتا ہے۔ آئین میں درج ہے کہ اس منصب کے لیے کم سے کم عمر 45 سال ہونی چاہیے لیکن نومنتخب چیرمین سینٹ کی عمر 40 سال ہے۔ آئین کی رُو کے مطابق صادق سنجرانی صدر پاکستان کی غیر موجودگی میں قائم مقام صدر کے لیے اہل نہیں ہیں۔ اس معاملے میں دوسری ترجیح بھی موجود ہے کہ اگر سینیٹ چئیرمین قائم مقام صدر نہیں بن سکتے تو پھر یہ ذمہ داری اسپیکر قومی اسمبلی کوسونپ دی جاتی ہے۔ لیکن پہلی ترجیح جب موجود ہے تو اس کی تعیناتی آئین کے مطابق یقینی کیوں نہیں بنائی گئی؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر چئیرمین سینٹ پہلی ترجیح کے طور پر قائم مقام صدر کے طور پر فرائض انجام نہیں دے سکتے تو اس میں کس کی ناکامی اور نااہلی ہے؟ کیوں ان کی تعیناتی کے وقت اس قدر اہم معاملہ کو نظر انداز کیا گیا؟ایک اور پہلو بھی صدر پاکستان کے حوالے سے زیر بحث ہے کہ صدر پاکستان 8 ستمبر کو اس عہدے سے دستبردار ہوجائیں گے۔ ان کی دستبرداری کے بعد قائم مقام صدر کون ہو گا؟ یہ سوال بھی سننے کو ملا کیونکہ صادق سنجرانی آئین کے آرٹیکل 41 پر پورا نہیں اترتے لیکن آئین میں اس حوالے سے آرٹیکل 45 موجود ہے جس میں درج ہے کہ صدر اپنی معیاد ختم ہونے کے باوجود اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہے گا۔اس تمام تر موجودہ صورت حال کی روشنی میں اہم سوال یہی ہے کہ سینیٹ چئیرمین کو منتخب کرتے وقت آئین کا آرٹیکل 41 مد نظر کیوں نہیں رکھا گیا۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ٹی وی پر ابھی یہ خبر بھی سننے کو مل رہی ہے کہ چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف درخواست دائر کی گئی ہے جس میں ان کی اہلیت کو آرٹیکل کی رُو سے چیلنج کیا گیا ہے۔ اس سب عمل کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے جو لوگ اس عمل کی نگرانی کے لیے بیٹھے ہیں وہ اس مثال پر پورا اترتے ہیں کہ
ذوق احمد