کرنسی کنورٹر

اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

806,477FansLike
9,940FollowersFollow
552,800FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

دنیا مکافات عمل ہے۔

غالباً آٹھ نو ماہ پہلے کی بات ہے، میں اپنے والد کے ہمراہ سفر میں تھا۔ ہمیں صادق آباد سے لاہور جانا تھا، سو ہم صبح سویرے سفر پر روانہ ہوئے۔ والد صاحب کو میاں چنوں میں کسی عزیز سے ملاقات کرنی تھی سو اس غرض سے ہمیں میاں چنوں میں کچھ دیر کےلیے ٹھہرنا پڑا۔ ہم دوپہر کے وقت میاں چنوں پہنچے، والد صاحب دوست کے ساتھ مشغول ہوگئے اور میں شہر میں مٹرگشت کرنے لگا۔ میاں چنوں ضلع خانیوال کی چار تحصیلوں میں سے ایک تحصیل ہے۔کہا جاتا ہے کہ میاں چُنوں نام کا ایک ڈکیٹ اس علاقے میں رہا کرتا تھا جو اپنی وارداتوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ میاں چُنوں بعد ازاں حضرت بہاء الدین ذکریا ؒ کے ہاتھ پر بیعت کرکے راہ راست پر آیا اور اپنی زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کیا۔ میاں چُنوں ڈکیٹ کے بعد ایک نیک انسان بنا۔ ان کا مزار آج بھی یہاں موجود ہے اور زائرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ میں اسی شخصیت کے نام پر قائم کیے گئے شہر میاں چنوں میں موجود تھا۔ضلع خانیوال تاریخ کا ایک اہم خطہ رہا ہے، اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی معلوم ہوتی ہے جتنی پرانی انسانی تاریخ ہے۔ ضلع خانیوال جنوبی پنجاب کا وہ خطہ ہے جس میں تلمبہ جیسے تاریخی علاقے موجود ہیں۔ تلمبہ میاں چنوں سے اٹھارہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس خطے کی خاک سکندراعظم، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شیر شاہ سوری اور بہت سی تاریخی شخصیات کے نشانات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔تقسیم سے پہلے کا خانیوال مختلف تہذیبوں، مذہبوں اور خداؤں کا مرکز تھا۔ علاقے میں مسجدوں، مندروں، گوردواروں سمیت گرجا گھر بھی موجود تھے۔ اس خطے میں جوگیوں اور صوفی منش لوگوں کی بہتات تھی جو آنے جانے والوں کو کوئی گُر کی بات بتا دیا کرتے تھے نیز لوگ مختلف طریقوں سے اپنے اپنے خداؤں تک پہنچنے میں سرگرم تھے۔برصغیر کی تقسیم کے وقت یہ خطہ انتہائی تذبذب کا شکار رہا۔ علاقے میں بے یقینی کی صورتحال پھیلی رہی۔ اس بے یقینی کی صورتحال میں ہی ہندو اور سکھ موجودہ بھارت کی جانب نقل مکانی کرگئے جس کے دوران بہت سے ناگوار واقعات رونما ہوئے۔ خیر! میرا اصل مقصد اس خطے کی تاریخ بیان کرنا نہیں۔ ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔میں شہر میں گشت کررہا تھا کہ اچانک میری نظر دور دو عمارتوں سے ٹکرائی۔ بہت ساری نئی عمارتوں کے درمیان یہ اکیلی دو قدیم عمارتیں موجود تھیں۔ یہ عمارتیں ہندوؤں کے مندر معلوم ہوتی تھیں۔ عمارتوں کے قدیم ہونے کے عنصر نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کرالی۔ اب میں مندر کی جانب چلتا گیا۔ میں جونہی مندر کے نزدیک پہنچا، صورتحال واضح ہوئی۔ یہ مندر شہر کے عین وسط میں موجود تھے۔ ان کے اردگرد بہت سے کاروباری مراکز قائم تھے۔ تاریخ نے جو نقشہ اس شہر کا مجھے دیا تھا، یہ شہر اس سے یکسر مختلف تھا۔میں جیسے ہی مندر کے احاطے میں پہنچا میری نظر مندر کے ماتھے پر لکھے ہوئے کلمہ طیبہ اور درود شریف پر پڑی۔ میں یہ دیکھ کر چونک پڑا کیونکہ میرے ذہن کے مطابق ان مندروں میں ہندوؤں کے بت ہونے چاہیے تھے؛ اور یہ مکمل طور پر نہ سہی لیکن جزوی طور پر اپنی اصل حالت میں ہونے چاہیے تھے۔ لیکن یہ مندر صرف باہر سے اپنی اصلی حالت میں تھے۔ ہندوؤں کی یہ عبادت گاہ اب کاروباری عمارت کی شکل ڈھل چکی تھی جس میں اخبار کے علاوہ دیگر دفاتر بھی قائم تھے۔میں عمارت کے اندر داخل ہوا۔ وہاں موجود ایک شخص سے اس تبدیلی اور کلمہ طیبہ کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگا کہ تقسیم کے وقت ہندو یہاں سے چلے گئے تھے اور یہ مندر ہمارے قبضے میں آگئے۔ اب ہم یہاں جو چاہے کریں۔بات کو یہیں روکتے ہیں۔ آپ ایک لمحے کےلیے دنیا میں مسلمانوں کی صوتحال کا جائزہ لیجیے۔ ہم کیوں شب و روز اسرائیل کے خلاف بیت المقدس کے حق میں سر پیٹتے نظر آتے ہیں؟ شام میں مظالم کی خبروں پر کیوں ہمارا خون کھولنے لگتا ہے؟ عراق میں قتل و غارت پر کیوں ہمارا برائے نام ایمان جاگنا شروع ہوجاتا ہے؟ جبکہ ہم اس تمام صورتحال کے خود ذمہ دار ہیں۔ جب ہم اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ ہمارے قبضے میں موجود ہر ایک شئے پر ہماری حکمرانی ہے اور ہم جس طرح چاہیں اس کا حسب نسب بدل سکتے ہیں، تو یہ دنیا مکافات عمل ہے؛ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔جب ہم پوری پوری بستیوں کو اس لیے آگ لگادیں کہ یہ غیرمسلم ہیں تو دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر ہمارا خون نہیں کھولنا چاہیے۔ آپ تصور کیجیے کہ کسی غیر اسلامی ملک میں کسی مسجد کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہوتا تو ہم کیا ردعمل پیش کرتے؟جون ایلیا نے کیا شاندار بات کہی تھی کہ ہم ’’ایک ہزار سال سے تاریخ کے دسترخوان پر حرام خوری کے سوا کچھ نہیں کررہے۔‘‘ آپ بیت اللہ سے حجراسود نکالنے والے بحرین کے حکمران حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی کو اٹھالیجیے یا پھر سومنات کے مندر پر 21 حملے کرکے خزانہ اٹھانے والے محمود غزنوی کو یا اقتدار کےلیے مغل بادشاہوں کے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے کے واقعات، آپ کو حرام خوری کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ اور جب تک ہم یہ حرام خوری کرتے رہیں گے، دنیا میں رسوا ہوتے رہیں گے۔لیکن اگر ہم پاکستان کو واقعی مدینہ ثانی بنانا چاہتے ہیں اور دنیا میں مسلمانوں کو رسوا ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمارے معاشرے کو عمر بن خطاب ؓ اور عمر بن عبدالعزیزؒ جیسی شخصیات کو جنم دینا ہوگا۔ ہمیں دوسرے مذاہب کو اپنی ریاست میں اتنی ہی عزت دینا ہوگی جتنی ایک مسلمان کو حاصل ہے۔ اور ہمیں اسلام کو جبری دین کے بجائے دنیا کے سامنے حسن سلوک سے ایک شاندار دین کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔وگرنہ ہم تاریخ کے دستر خوان پر اگلے ایک ہزار سال تو کیا، قیامت تک حرام خوری ہی کرتے رہیں گے۔
زین علی