اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

842,552FansLike
9,978FollowersFollow
561,200FollowersFollow
181,482SubscribersSubscribe

ہم بھی پاکستانی ہیں، ہمیں حق کب ملے گا؟ ایک سکھ نوجوان کا سوال

از شیما صدیقی : آٹھ ماہ ہوگئے ہیں، لیکن میرا شناختی کارڈ اب تک نہیں بنا، میرے پاس ٹوکن نمبر موجود ہے، لیکن جب بھی نادرا کے دفتر جاؤ تو کہا جاتا ہے کہ ایک ماہ بعد آنا، لیکن شناختی کارڈ جاری نہ کرنے کی وجہ نہیں بتائی جاتی۔ میں کسی فیکٹری میں کام کرنا چاہتا ہوں مگر شناختی کارڈ نہ ہونے کے باعث کچھ نہیں کرسکتا’۔سندھ کے شہر کندھ کوٹ کے رہائشی 19 سالہ سردار دلیپ سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ ‘نادرا والے پوچھتے ہیں کہ آپ نے سکھ مذہب کیوں اختیار کیا؟ کیا اس کے لیے آپ کو کسی نے پیسے دیئے تھے؟ میں نے کہا کہ مجھے یہ دھرم اچھا لگا تو میں نے اسے اختیار کرلیا۔ لیکن انہیں شک تھا کہ میں پاکستانی نہیں ہوں کیونکہ میری پگڑی الگ قسم کی ہے’۔سردار دلیپ سنگھ نے ہندو دھرم چھوڑ کر چند سال پہلے سکھ مذہب اختیار کیا ہے۔ وہ تبدیلی مذہب کی کہانی کچھ اس طرح سناتے ہیں: ‘جب میں 12 یا 13 سال کا تھا تو گھر والوں نے سکھ مذہب اختیار کرلیا۔ اصل میں ہم ماں کے ساتھ ننکانہ صاحب گئے تھے۔ بہت پرانی بات ہے، میں اُس وقت آٹھ ماہ کا تھا اور میرا نام دلبر تھا ۔وہاں ایک فقیر نے میرے بال پکڑ کر کہا تھا کہ جب یہ جوان ہو جائے گا تو یہ سکھ بنے گا اور جب بھی یہ کسی کی مدد کے لیے جائے گا تو کامیاب رہے گا، یہ باتیں فلموں میں یا ڈراموں میں اچھی لگتی ہیں ،لیکن کچھ سچے لوگ بھی ہیں اور میرے ساتھ ایسا ہی ہوا’۔انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‘میری چار بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ ہمارے علاقے میں بہت غربت ہے اور ہمارے مالی حالات بھی اچھے نہیں۔ بڑا بھائی بھی کوئی کام نہیں کرتا، باپ نشہ کرتا ہے، والدین بھی پڑھے لکھے نہیں تھے، اس لیے ہم اسکول گئے ہی نہیں’۔دلیپ نے مزید بتایا، ‘وہاں اکثر گھروں کا یہی حال ہے۔ کام بھی نہیں ہے، لوگ گاؤں سے باہر نکل کر محنت مزدوری کرتے ہیں  یا اور کوئی چھوٹا موٹا کام، جیسے کسی کی گاڑی صاف کردی۔ میں خود راج مستری کا کام کرتا ہوں، لیکن میری کوشش ہے کہ چھوٹے بہن بھائی پڑھ جائیں۔ وہ شام میں دھرم شالہ جاتے ہیں’۔یہ ساری باتیں کرتے ہوئے دلیپ کافی سنجیدہ نظر آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ‘گاؤں میں ایک سرکاری اسکول ہے، لیکن استاد نہیں ہے۔گاؤں کا کوئی بچہ 10 جماعتیں بھی پڑھ لے تو تعلیم کا معیار یہ ہے کہ اُس کو اردو میں بات کرنا نہیں آتی، نہ ہی لکھنا آتا ہے۔ ہمارے گاؤں میں زیر تعمیر پاٹ شالہ اور گوردوارہ ہے، وہاں شام میں سب نہا دھو کرآتے ہیں۔ سو ڈیڑھ سو بچے وہاں ٹوٹی پوٹھی گورکھ مکھی پڑھتے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی کتاب نہیں، نہ ہی اسکول کے بستے ہیں۔ جب وہاں کے حالات دیکھو تو دل ہوتا ہے کہ ان کے لیے کچھ کرسکیں’۔دلیپ کے مطابق ‘میری اور میرے والدین کی زمین یہ سندھ ہی ہے۔ ہم یہیں پر پیدا ہوئے، یہاں کا نمک کھایا ہے اور یہیں پر رہیں گے۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم پاکستانی ہیں، پاک فوج ہمیں عزت دیتی ہے، ہمیں اچھا لگتا ہے۔ ہم اس کی قدر کرتے ہیں۔ میں بھی کافی سوچتا ہوں کہ میری تعلیم ہوتی تو میں بھی فوج میں جاتا، لیکن کچھ لوگ ہمیں الگ سمجھتے ہیں’۔19 سالہ دلیپ اپنی برادری کے بڑوں سے کچھ نالاں بھی نظر آئے۔ انھوں نے گلہ کیا کہ ‘وہاں بڑے بڑے لوگ آتے ہیں، بھاشن دیتے ہیں کہ باہر سے پیسہ لائیں گے، غریبوں کو ایک لاکھ دیں گے  اور لوگ ان کو بھگوان مان لیتے ہیں کہ انہوں نے ہماری مدد کی جبکہ بڑے لوگ دنیا کو دکھانے کے لیے فوٹو بنواتے ہیں اور خود دس ونڈی کے نام پر غریبوں کی جیب سے پیسے نکال لیتے ہیں’ (دس ونڈی یعنی خیرات، سکھ مذہب میں سو روپے کا دسواں حصہ اپنے دھرم اور برادی پر دان کرنا ضروری ہے)۔انہوں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا، ‘پھر بھی غریب لوگ ہی گوردوارے میں آتے ہیں۔ بڑے لوگ وہاں آئیں، پاٹ شالہ بنوائیں، وہ وہاں پیسے کیوں نہیں لگاتے؟ مدد کیوں نہیں کرتے؟ گوردوارہ ہوگا تو پاٹ شالہ بھی ضرور بنے گا، صبح شام سجدہ بھی کریں گے، وہاں تعلیم لیں گے تو دنیا داری آئے گی، یہ بڑے لوگ غریبوں کے لیے کچھ کرکے دکھائیں تو میں ان کو جانوں’۔دلیپ ہمارے پاکستانی معاشرے کا ہی ایک فرد ہے، جسے ایک طرف اپنی پہچان کی فکر ہے تو دوسری جانب فکرِ معاش کا بھی غم۔ بحیثیت اقلیت ہمارے آئین میں دلیپ کو بہت سے حقوق حاصل ہیں، لیکن ہم اسے اُس کے وہ بنیادی حقوق دینے کو تیار نہیں۔