اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

837,362FansLike
9,976FollowersFollow
560,500FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

آزادی صحافت چومسکی اور ایڈورڈ ہرمن کے پروپیگنڈہ ماڈل کے تناظر میں

از مسرور احمد : آزادیٴ صحافت ایک متنوع موضوع ہے جس کے بارے میں قیاس آرائیاں اور مباحث ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک صحافت آزاد ہے جب کہ کچھ کے نزدیک صحافت پا بہ زنجیر ہے۔ لیکن تحقیقی حوالوں سے مغرب کی نسبت ہمارے ہاں اس پر بہت کم علمی کام ہوا ہے۔ نوم چومسکی اور ایڈورڈ ہرمن نے 1998 میں شائع ہونے والی اپنی مشترکہ کتاب بعنوان Manufacturing consent: The Political Economy of Mass Media (بیانیے کی تخلیق: ذرائع ابلاغِ عامّہ کی سیاسی معیشت) میں اس موضوع پر خالصتاً اکیڈمک انداز میں تحقیقی نقطہ نظر پیش کیا ہے جو شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کیلئے خاصی دلچسپی کا سامان رکھتا ہے۔ ان دونوں اسکالرز کا کہنا ہے کہ کوئی بھی خبر بہت سے فلٹرز سے گزر کر تشکیل پاتی ہے اور پھر ایک مخصوص بیانیے کی ترویج کیلئے عوام الناس تک پہنچائی جاتی ہے۔چومسکی اور ہرمن کے پروپیگنڈا ماڈل کا مرکزی نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا میں پاور دراصل چند غیر منتخب شدہ افراد، عناصر اور کارپوریشنز کے ہاتھوں میں ہے جو طاقت کے دیگر ستونوں کے علاوہ عالمی میڈیا پربھی بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک مخصوص ایجنڈے یا بیانیے کو فروغ دینے کیلئے خبریں باقاعدہ انتخاب (selectivity)، فلٹرنگ (filtering) اور ’’صفائی/ تطہیر‘‘ (sanitization) کے مراحل سے گزاری جاتی ہیں۔ عوام الناس تک صرف وہی خبری مواد پہنچایا جاتا ہے جو ان چند پاور اسٹیک ہولڈرز کے مفاد کو پورا کرتا ہو جن کا مقصد صرف اپنی ذاتی طاقت و اثر و رسوخ اور کارپوریٹ منافع میں اضافہ کرنا ہوتا ان غیر منتخب عناصر اور کارپوریشنز کا دائرہ کار اور اثر و رسوخ مقامی سطح پر بھی ہوتا ہے اور عالمی سطح پربھی۔ چومسکی اور ہرمن اپنے اس ماڈل میں ہمیں سمجھاتے ہیں کہ کارپوریٹ ماس میڈیا، پروپیگنڈ ے اور تعصبات کو کیسے مربوط طریقے سے فروغ دیتا ہے۔ اس پروپیگنڈا ماڈل کے ذریعے ہمیں یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس کے تحت کیسے معاشی، سماجی اور سیاسی پالیسیوں کے حوالے سے عوام کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔بظاہر یہ تھیوری کارپوریٹ میڈیا کے اسٹرکچر کا احاطہ کرتے ہوئے آزادی صحافت کے روایتی اور خیالی تصورکی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ چومسکی اور ہرمن کے مطابق کارپوریٹ میڈیا کا مجموعی اسٹرکچر میڈیا پروفیشنلز کی بجائے کاروباری افراد کی میڈیا پر اجارہ داری (ownership and money)، ایڈورٹائزنگ کی بنیاد پر کھڑا میڈیا سسٹم (advertising-based media system)، خبر کے مشکوک سورسز (sourcing mass media news)، نشر ہونے والے ناپسندیدہ مواد کی جبری بندش (the covering fire of flak)، پہلے اینٹی کمیونزم اور اب اینٹی ٹیررازم یا ڈر و خوف کے بیانیے کی تشہیر (anti-communism/anti-terrorism and fear) پر مبنی ہے۔ میڈیا کا یہ اسٹرکچر مفادات کے تصادم کو تخلیق کرتا اور اسے تسلسل دیتا ہے جو ازاں بعد غیر جمہوری قوتوں کیلئے پروپیگنڈا کا کام کرتا ہے۔کاروباری افراد کی میڈیا پر اجارہ داری پر بات کریں تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں بزنس کمپنیاں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، جن میں سے کچھ اپنے کاروباری مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں اور کچھ یا تو ناکام ہوجاتی ہیں یا مسلسل خسارے کے نتیجے میں بند ہو جاتی ہیں۔ اس عمل سے مارکیٹ میں کچھ بڑی کاروباری کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے۔ مثلاً ہمیں معلوم ہے کہ کولا مارکیٹ میں کس کمپنی کی اجارہ داری کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ کارووباری ملکیت کے چند ہاتھوں تک سکڑنے کے سبب پاور تک ان کی رسائی آسان ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں بڑی مچھلیوں کا چھوٹی مچھلیوں کو نگلنا اور آسان ہوجاتا ہے۔ ایک کمپنی بے غرضانہ انداز میں اپنے مالک کے مقاصد کو فروغ دیتی ہے۔ ان کمپنیوں کے ملازمین اپنی ضرورتوں کیلئے ایک آلہ کارکے طور پر اپنے ادارے یا مالک کے ہاتھوں استعمال کیے جاتے ہیں۔ہرمن اور چومسکی کے پروپیگنڈا ماڈل کے مطابق میڈیا انڈسٹری کو چند بڑی بڑی کمپنیاں کنٹرول کرتی ہیں اور بہت سے میڈیا چینلز پر ان کا غلبہ رہتا ہے۔ یہاں تک کہ انٹرنیٹ کے پھیلاؤ کے بعد بہت سی ویب سائٹس کی تخلیق اور دیگر ذرائع سے کارپوریٹ سیکٹر کی میڈیا پر اجارہ داری جوں کی توں قائم ہے۔جیسا کہ ظاہر ہے پیسہ کاروبار کی بنیاد اور پیسہ کمانا ہی کاروبار کا بنیادی محرک ہے۔ اس سے سوال پید اہوتا ہے کہ فنڈنگ کے ذرائع کیسے تشکیل پاتے ہیں۔ جہاں تک خبروں اور میڈیا کی بات ہے تو ان کی فنڈنگ کے بنیادی ذرائع سبسکرپشن ماڈل (subscription model)اور اشتہارات (advertising) ہیں۔ ان دونوں کے ذریعے خبر کو سستے داموں صارفین تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ پرنٹ، الیکٹرونک اور ویب میڈیا کا زیادہ تر انحصار ان ہی ذرائع پر ہوتا ہے۔ لہٰذا خبر، مضمون یا پروگرام ریٹنگ کی بنیاد ڈالتے ہیں۔ جو مواد جتنی ریٹنگ کھینچ سکے، وہ اتنا ہی زیادہ چلایا جاتا ہے۔ چنانچہ ایڈیٹرز اور میڈیا مینیجرز اشتہاری اداروں کی ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے کیونکہ ان کی مرضی کا مواد اگر نشر نہ کیا جائے تو وہ اشتہارات کے ذریعے کی جانے والی فنڈنگ سے ہاتھ کھینچ سکتے ہیں۔ یوں وہ میڈیا پر براہ راست اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ نشری مواد کو فلٹر کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ایک اور بہت بڑا سوال ہے کہ میڈیا پر نشر ہونے والی خبریں آتی کہاں سے ہیں؟ میڈیا اداروں کے پاس بظاہر خبریں اکٹھی کرنے کے اپنے ادارہ جاتی ذرائع محدود ہوتے ہیں۔ نہ صرف چھوٹے بلکہ بڑے میڈیا اداروں کے پاس بھی اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ جگہ جگہ خبروں کے حصول کیلئے اپنے رپورٹرز کو بھیج سکیں۔ چنانچہ متبادل اور آسان ذرائع سے خبروں کا حصول ممکن بنایا جاتا ہے۔ یوں جلد شائع یا نشر کرنے کی دوڑ میں متبادل ذرائع سے آنے والی خبروں کی چھان بین اور حقیقت پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی جس سے معاشرے میں افواہ سازی کو فروغ ملتا ہے۔یہ عمل میڈیا کو کنٹرول کرنے والے عناصر کے مفاد کو تقویت دیتا ہے۔ کاروباری کمپنیوں اور گورنمنٹ کے پاس مارکیٹنگ اور پی آر کے بڑے بڑے ادارے اور ماہرین موجود ہوتے ہیں جو پریس ریلیز تیار کرتے ہیں اوراپنے کمرشل مفاد کی وجہ سے میڈیا ادارے بھجوائے گئے مواد کی تصدیق کیے بغیر اسے من و عن نشر یا شائع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کاروباری کمپنیاں اور گورنمنٹ اپنے ماہرین کو انٹرویو کیلئے بھی بھجواتے ہیں جو ظاہر ہے اپنے ادارہ جاتی ایجنڈے کی حمایت یا اس کا دفاع کرتے ہیں۔یہاں تک کہ بعض اوقات خاص مقاصد یا ایجنڈے کو فروغ دینے اور تضادات پھیلانے کیلئے اکیڈمک ریسرچ کی بھی فنڈنگ کی جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں، انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہیں لیکن قابل ذکر پذیرائی صرف چند ایک کو ہی ملتی ہے۔ جس طرح انڈسٹریز پر چند بڑے کھلاڑیوں کی اجارہ داری ہوتی ہے اسی طرح میڈیا پر بھی چند بڑے میڈیا پرسنز کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے جنہیں بڑے کارپوریٹ یا حکومتی ادارے اپنے بیانیے کے فروغ کیلئے مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے بڑی آسانی سے قابو کرلیتے ہیں۔بعض مرتبہ میڈیا پر کچھ ایسا مواد نشر یا شائع ہو جاتا ہے جو طاقتور لوگوں کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے۔ ان لوگوں کے پاس صورتحال پر قابو پانے کیلئے بہت سے طریقے موجود ہوتے ہیں۔ ناپسندیدہ خبروں کو رکوانے کیلئے یا تو کوئی بہت بڑی پیشکش کی جاتی ہے، بصورت دیگر کچھ ایسے میڈیا صارفین پیدا کیے جاتے ہیں جن کی اس مواد کے متعلق شکایت کو وائرل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ وکیلوں کی خدمات بھی لی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ خبر نشر کرنے والے ادارے کے کاروباری مفاد کو نقصان پہنچانے اور قید یا سزا کے دیگر پہلوؤں کو بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔ یوں ’’بڑے بھائی‘‘ کو ناراض کرنے والے مواد کی تشہیر روکنے کیلئے مختلف تخریبی حربوں کو مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے ’’خبر‘‘ پر فلٹر لگا دیا جاتا ہے۔فلیک (flak) کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں جن میں بلاگز، نیوز لیٹرز، تقاریر، دھرنے، اسپانسرشپ، پارلیمنٹ میں قانون سازی، دھمکی آمیز کالیں اور خریدنے کے دیگر ذرائع شامل ہیں۔ اس طرح طاقتور سوشل ایلیٹ کے مفادات کے آڑے آنے والوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی جاتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں انہیں عبرت کی علامت بنا دیا جاتا ہے۔ جب تک حریف کو یہ سب کچھ سمجھ میں آتا ہے، وہ چاروں شانے چت ہوچکا ہوتا ہے۔اس پروپیگنڈا ماڈل کا نقطہ عروج ڈر یا خوف کی مسلسل تشہیر یا اسے بیچنا ہے۔ لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کیلئے پہلے بہت سی عفریتوں (demons) کو پید اکیا جاتا ہے، پھر ان کی آڑ میں سیکیورٹی و دفاعی صلاحیتیں بڑھانے، میڈیا کو کنٹرول کرنے اور دفاعی صنعت کو ترقی دینے کے جواز پیدا کیے جاتے ہیں۔ امریکا میں کئی سال تک کمیونزم کو ایک عفریت کے طور پر پیش کیا گیا اور پھر سوویت یونین کے زوال کے بعد اسلامی دہشت گردی کا عفریت پیدا کردیا گیا۔ پبلک کے موڈ کو اس عفریت سے ہم شناس کرنے کیلئے ٹی وی ڈرامے اور فلمیں تخلیق کی جانے لگیں۔ڈر ایک طاقتور عنصر ہے جو لوگوں کو تحفظ کی طرف مائل کرتا ہے اور وہ واقعات کی تہہ میں جانے کی بجائے اس کے سطحی پہلوؤں کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ یوں ڈر کا پروپیگنڈا دھیرے دھیرے لوگوں کے ذہنوں پر اثر پذیر ہوجاتا ہے۔ کمیونزم اور دہشت گردی، ڈر پیدا کرنے کے محض دو پہلو ہیں۔ بہت سے دیگر حقیقی خطرات میں اپنی بچتوں یا گھر سے محروم ہونے کا ڈر، ملازمت سے ہاتھ دھونے کا ڈر اور اسی طرح ڈر کے بہت سے دیگر پہلو لوگوں کو انجانے خوف میں مبتلا رکھتے ہیں۔نیوز ہیڈ لائنز ڈر اور خوف کی ان پرچھائیوں کو حقیقت کا روپ دیتی رہتی ہیں، یوں معاشرے پر سوشل ایلیٹ کی اجارہ داری قائم رہتی ہے اور سچ تہہ در تہہ چھپا رہتا ہے۔ ایسے میں آزادی صحافت اور آزادی اظہارکو ہم محض لفظوں کا ہیر پھیر ہی کہہ سکتے ہیں۔