اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

837,362FansLike
9,976FollowersFollow
560,500FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

وصال یار ، فقط آرزو کی بات نہیں

از ساحر نیازی : ساحل، احسن اور شعیب، تینوں آپس میں گہرے دوست تھے۔ تینوں اوائل جوانی میں تھے اس لیے پڑھنے کے علاوہ سیر و تفریح اور گھومنے گھمانے میں مصروف رہتے۔ ایک دن ساحل نے کہیں جنگل میں کسی خوبصورت جگہ پر جا کر کچھ وقت بِتانے کا سوچا۔ جب اس نے یہ خیال شعیب اور احسن کے سامنے رکھا تو دونوں پر جوش ہوگئے۔سو اس وقت وہ تینوں گاڑی پر سوار، مست ذہنوں کے ساتھ ہلا گلا کرتے جنگل کی طرف جا رہے تھے۔ پکی سڑکیں ختم ہوئیں، کچے راستے شروع ہوگئے۔ جب کچے راستوں پر بھی جھاڑیوں اور دوسری رکاوٹوں کی وجہ سے گاڑی چلانا دشوار ہوگیا تو انہوں نےگاڑی روک کر پیدل ہی آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ چلتے چلتے آخر انہیں ایک خوبصورت سی جگہ پسند آ ہی گئی۔ یہاں قدرت نے خزانہ حسن خوب لٹایا تھا۔ ایک طرف ایک ندی بہ رہی تھے تو اس کے کنارے بہت سارے جنگلی پھول اور درخت بھی موجود تھے۔’’ارے! وہ سامنے کیا چیز ہے؟‘‘ احسن نے اچانک کہا۔ اس کی بتائی ہوئی سمت دونوں نے دیکھا تو چونک پڑے۔ اس ویرانے میں یہ انسان کے ہاتھوں بنی ہوئی ایک دیوار سی لگ رہی تھی۔ قریب جانے پر یہ دیوار ایک کنواں ثابت ہوئی۔ یہ کنواں خاصا گہرا لگ رہا تھا۔ وہ اپنی اس دریافت پر بے حد خوش ہوئے اور اس کے بارے میں تبصرے کرنے لگے کہ یہ کیسے اور کس نے بنایا ہوگا اس ویرانے میں۔ ساحل کو بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ ’’کاش ہم اپنے ساتھ کچھ فاسٹ فوڈ بھی لے آتے۔ میرا برگر کھانے کو بہت دل کررہا ہے۔‘‘ ابھی ساحل نے یہ فقرے اپنی زبان سے ادا کیے ہی تھے کہ اچانک اس کے سامنے والے درخت کے پاس ایک برگر اپنے سارے لوازمات کے ساتھ آگیا۔ساحل کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے فوراً اپنے ساتھیوں کو اس بارے میں بتایا تو وہ بھی حیرت سے گنگ ہوگئے۔ ’’شاید یہ کوئی جادوئی کنواں ہے جہاں پر جو بھی خواہش کی جائے، پوری ہوجاتی ہے،‘‘ احسن سوچتے ہوئے بولا۔شعیب بولا ’’ابھی آزما لیتے ہیں اسے! میری خواہش ہے کہ ابھی ایک آئی فون آجائے۔‘‘ فوراً سے پہلے ہی ایک آئی فون سامنے پڑا نظر آیا۔ اب تو تینوں دوستوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔شعیب سب سے زیادہ پرجو ش تھا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ ہم کچھ بھی اس کنویں سے حاصل کرسکتے ہیں،‘‘ یہ کہتے ہی اس نے جلدی سے سوچا اور انوکھی فرمائش کر ڈالی۔ اچانک ایک خوبصورت سی لڑکی کہیں سے آگئی اور شعیب مسکراتے ہوئے اس سے باتیں کرنے میں مصروف ہوگیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر تو ساحل کو جیسے ہوش آیا۔ اسپورٹس کار کی جو خواہش اس کے دل میں برسوں سے پل رہی تھی، اسے لگا کہ اس کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے۔ساحل نے فوراً خواہش کی اور خواہش کرتے ہی ایک چمکتی دمکتی اسپورٹس کار اس کے سامنے تھی۔ وہ فوراً ہی اس کے اندر بیٹھ کر اسے چھیڑنے لگا۔ احسن مسلسل سوچ میں گم تھا کہ یہ کیا چکر ہے۔ سوچتے ہوئے اسے کچھ دیر گزری تو اچانک اسے ساحل کی چیخ سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ساحل جو پہلے گاڑی میں بیٹھا تھا، اب نیچے گھاس پر گرا ہوا تھا۔ اور گاڑی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ اتنے میں شعیب بھی بوکھلایا ہوا آ گیا۔ اس کے ساتھ والی لڑکی بھی کہیں غائب تھی۔ انہیں آئی فون کا خیال آیا تو وہ بھی غائب تھا۔’’شاید اس کنویں سے حاصل کی ہوئی چیزیں کچھ دیر بعد غائب ہو جاتی ہیں!‘‘ احسن بولا۔’’ہاں لیکن سوائے ان کے جو کھا لی جائیں۔ میرے پیٹ میں موجود برگر تو غائب نہیں ہوا،‘‘ ساحل نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر انہوں نے مختلف چیزیں منگوانی شروع کردیں۔ وہ جو بھی چیز منگواتے، آدھے گھنٹے تک ان کے پاس رہتی پھر غائب ہوجاتی۔ وہاں سے واپسی کے دو دن بعد ہی وہ واپس اسی جگہ پر تھے۔ احسن نے دو مرتبہ ان کے ساتھ آنے کے بعد انکار کردیا۔’’تم کیوں نہیں آنا چاہتے ہمارے ساتھ؟ دیکھو ہم دنیا جہان کی چیزیں حاصل کرسکتے ہیں اس طرح،‘‘ انہوں نے اسے منانے کی کوشش کی۔ ’’ہاں! لیکن یہ سب نہ صرف عارضی ہے بلکہ ایک دھوکا بھی ہوتا ہے۔ حقیقت میں ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ میں اس دھوکے کا شکار نہیں ہونا چاہتا،‘‘ احسن اپنی بات پر مصر رہا۔ساحل اور شعیب نے کچھ دن اسے منانے کی کوشش کی پھر اسے اس کے حال پر چھوڑ کر وہ اس کے بغیر ہی جانے لگے۔ وقت گزرتا رہا۔ احسن نے پڑھائی مکمل کرنے کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔ اس نے شروع کے سال میں بہت مشکل وقت گزارا لیکن آہستہ آہستہ اس کے پیر جمتے گئے۔ وہ کاروباری دنیا میں ایک معروف نام بن گیا۔ بیوی بچے، گھر، دولت سب کچھ ہی اس کے پاس تھا۔ وہ خواہشات جو وہ زندگی کے اوائل میں رکھتا تھا، اس سفر میں کب کی پوری ہو چکی تھیں۔ایک دن جب وہ اپنے شاندار بنگلے کے لان میں بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا، اسے ملامت نے آن گھیرا۔ اسے پرانے دوست یاد آئے کہ ان کا کیا بنا ہوگا۔ اس نے ان سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔کچھ دن کی تلاش پھر اسے اس جنگل میں لے گئی۔ وہ آگے بڑھتا ہوا کنویں تک پہنچا تو دیکھا کہ وہاں ایک قبر تھی جس کے کتبے پر ساحل کا نام لکھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ قبر کے نزدیک ایک بوڑھا شخص بھی بیٹھا تھا جس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی، حالت خراب تھی۔ احسن کو اسے پہچاننے میں تھوڑی دیر لگی۔ وہ بوڑھا اس کے گلے لگ گیا۔ یہ شعیب تھا۔ احسن کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے شعیب سے پوچھا کہ ان کا یہ حال کیسے ہوا اور ساحل کیسے مرگیا؟’’جب تم چلے گئے تو ہم یہاں روز آنے لگے۔ پھر آنے جانے کی زحمت سے بچنے کےلیے ہم نے شہر کے گھر بیچ کر کنویں کے بالکل پاس ہی گھر لے لیے۔ اب ہم سارا دن کنواں کے پاس بیٹھ کر عیاشی کرتے۔ دنیا جہان کی نعمتیں ہمارے پاس ہوتیں لیکن جب شام کو گھر جاتے تو خالی ہاتھ ہوتے۔ کچھ عرصہ گزرا تو ساحل طرح طرح کے کھانے کھا کھا کر بہت موٹا ہوگیا تھا۔ پڑھائی اور کیرئیر کی فکر کیے بغیر ہم اس جنگل میں بیٹھ کر مزے کرتے رہے۔ ساحل کا موٹاپا بڑھتا جارہا تھا لیکن وہ کنویں سے ملنے والے لذیذ کھانوں کا عادی ہوچکا تھا۔ ایک دن اچانک وہ دل کی تکلیف میں مبتلا ہوا اور مرگیا۔ اس ویرانے میں ایک وہی میرا ساتھی تھا۔ اس کے مرنے سے میرا دل دنیا سے اچاٹ ہوگیا۔ میں نے غصہ میں آ کر کنویں کو گرا دیا اور اب کئی سال سے یہاں پر ہی خود فراموشی کی زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘یہ کہانی صرف ساحل اور شعیب کی نہیں بلکہ ہم سب کی ہے۔ زندگی میں ہم سب لوگوں کے کچھ خواب ہوتے ہیں۔ جانے انجانے میں ہم ان خوابوں اور مقاصد کے حصول کےلیے محنت کرنے کے بجائے جادو کے کنوؤں میں پھنس جاتے ہیں۔ ہم سب ہی کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن کامیابی کی طرف جانے والے راستے کے بجائے وقتی لذت اور آرام کے کنویں کو ترجیح دیتے ہیں۔مثلاً ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو اپنے آپ کو جسمانی طور پر فٹ اور چاق و چوبند نہیں رکھنا چاہتا مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو اس کو حاصل کرنے کےلیے ورزش اور صبح سویرے اٹھ کر جاگنگ کرتے ہیں؟ اس معاملے میں ہم میں سے اکثر لوگ نرم بستر اور میٹھی نیند کے کنویں کے اسیر ہیں۔ اسی طرح امتحان میں کامیابی ہو، کسی مہارت کا اکتساب یا اپنی پسندیدہ ملازمت کا حصول، ہم قسمت کے مہربان ہونے کے منتظر اور شارٹ کٹس کی تلاش میں رہتے ہیں؛ جبکہ اس کام کےلیے درکار محنت اور کوشش یا مطلوبہ قابلیت کے حصول سے کتراتے ہیں۔ نتیجہ آپ اپنے آس پاس کے لوگوں میں دیکھ سکتے ہیں۔ اکثرلوگوں کی زندگی اس کہانی کے ساحل اور شعیب جیسی گزرتی ہے۔ مقصد کوئی بھی ہو، جب تک ہم ڈسپلن اور لگن کے ساتھ مسلسل محنت نہیں کرتے، کامیابی نہیں ملتی۔