اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

843,385FansLike
9,979FollowersFollow
561,200FollowersFollow
181,482SubscribersSubscribe

جے آئی ٹی کے سنگین تحفظات

پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ حکومتی ادارے دستاویزات میں ردوبدل کر رہے ہیں اور تفتیش میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں، اس لیے 60دن میں تفتیش مکمل نہیں ہوسکتی، عدالت نے آبزرویشن دی کہ جے آئی ٹی نے بعض اداروں پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں جن کے سنگین اور دور رس نتائج مرتب ہو سکتے ہیں، جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں خصوصی بنچ نے جے آئی ٹی کو درپیش رکاوٹوں اور حسین نواز کی فوٹو لیک ہونے کے معاملے کی سماعت کی۔ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے سے متعلق سربمہر رپورٹ جمع کرائی۔
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی جانب سے دائر کی گئی متفرق درخواست میں بعض ریاستی اداروں کی جانب سے تحقیقات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے الزامات پر وفاق سے جواب طلب کر لیا ہے‘ اس نئی متفرق درخواست میں جے آئی ٹی نے موقف اختیار کیا ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تحقیقات کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں‘ ریاستی ادارے ریکارڈ کی فراہمی میں تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں‘ کچھ ادارے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کر رہے ہیں‘ 60میں سے 30دن سے زائد کا وقت گزر چکا ہے‘ اب رکاوٹوں کے باعث تحقیقات مقررہ مدت یعنی 60دنوں میں مکمل نہیں ہو سکتی ہیں‘ حسین نواز پہلی پیشی پر کوئی ریکارڈ ساتھ نہ لائے اور سوالوں کا جواب بھی دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن اپنی درخواست میں اس کے برعکس تاثر پیش کیا۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم واضح کر دیتے ہیں کہ اگر کسی نے تحقیقات کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی تو اسے اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے‘ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے ہیں کہ جے آئی ٹی کی اس درخواست کے بہت دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے جب سے اپنا کام شروع کیا ہے‘ مختلف قسم کی چہ مگوئیاں، قیاس آرائیاں اور الزام سامنے آتے رہے ہیں‘ یہ تحقیقات کیونکہ انتہائی اہمیت کی حامل ہیں اور اس میں حکمران خاندان کے افراد سے پوچھ گچھ ہورہی ہے لہٰذا اسے ہر قسم کے الزامات اور تحفظات سے مبرا ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے معاملات کچھ یوں ہیں کہ اب جے آئی ٹی نے بھی سپریم کورٹ کو بتایا کہ حکومتی ادارے دستاویزات میں ردوبدل کر رہے ہیں اور تفتیش میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں‘ اس لیے مقررہ مدت میں تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی ہے‘ اس سے جے آئی ٹی نے ایک طرح سے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے، ظاہر سی بات ہے کہ اگر ادارے تعاون نہیں کریں گے بلکہ تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں گے تو پھر تحقیقات کیسے آگے بڑھ سکتی ہیں۔ فاضل جج حضرات نے بھی اس معاملے کو سنگین قرار دیا ہے۔ یوں پاناما لیکس کی تحقیقات الجھتی اور پیچیدہ ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ جہاں جے آئی ٹی اپنی مشکلات بیان کر رہی ہے وہاں جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے بھی جے آئی ٹی ارکان کے رویے یا تفتیش کے انداز سے مطمئن نہیں ہے۔
اس دوران وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہو گئی‘ اس معاملے نے بھی صورت حال کو الجھایا‘ یوں دیکھا جائے تو ایک تلخ اور غیر یقینی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ اب معاملات خاصے پیچیدہ ہو چکے ہیں‘ ملک کے فہمیدہ حلقوں میں یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ اس اہم ترین مقدمے کو متنازعہ بنانے کی سنجیدہ اور منصوبہ بند کوششیں کی جا رہی ہیں‘ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کا فیصلہ کر کے درست سمت قدم اٹھایا ہے اور اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ وزیراعظم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں تاہم جے آئی ٹی کے ارکان نے اپنی درخواست میں جو کچھ کہا ہے‘ وہ بہت سنگین ہے‘ عدالت عظمیٰ کے سامنے یقیناساری صورت حال موجود ہے۔
جے آئی ٹی نے اپنی درخواست میں یقیناً ان اداروں کا بھی ذکر کیا ہو گا جو تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں‘ ان سے جواب طلبی کی جانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کے روبرو جو لوگ پیش ہو رہے ہیں‘ ان کی شکایات کا ازالہ بھی ہونا چاہیے تاکہ پاناما لیکس کی شفاف تحقیقات ہو سکیں اور جے آئی ٹی اپنا کام سپریم کورٹ کی مقررہ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔قرائین بتا رہے ہیں کہ جے آئی ٹی شاید اپنا کام مقررہ مدت تک مکمل نہ کرسکے، تحقیقات کو مقررہ مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے فریقین کو آئین اور قانون کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا چاہیے۔الزامات ، تحفظات اور الجھاؤ معاملات کو خراب کرے گا جس سے سیاست میں تلخی مزید بڑھے گی جو جمہوریت کے لیے نیک شگون نہیں ہوگی۔