اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

841,527FansLike
9,977FollowersFollow
560,700FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

طبی بنیادوں پرضمانت دینے کی درخواست پرنیب کو نوٹس

سپریم کورٹ میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر قومی احتساب بیورو (نیب) کو نوٹس جاری کردیا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم کی درخواست پر سماعت کی، جہاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ہم نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے، ہم نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ 16 جنوری کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی (پی آئی سی) نے پہلی میڈیکل رپورٹ دی جبکہ علامہ اقبال میڈیکل کالج، جناح ہسپتال نے دوسری میڈیکل رپورٹ دی۔نواز شریف کے وکیل نے بتایا کہ گورنر پنجاب نے 30 جنوری کو آرمڈ فورس انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی (اے ایف آئی سی) راولپنڈی کے ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا جبکہ سروسز ہسپتال کی بھی میڈیکل ٹیم نے 6 فروری کو رپورٹ دی۔انہوں نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے 4 رکنی خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بورڈ کب بنا؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 29 جنوری کو بورڈ نے رپورٹ پیش کی، دوسری رپورٹ سروسز ہسپتال نے 5 فروری کو جمع کروائی۔خواجہ حارث نے بتایا کہ 15 فروری کو علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح ہسپتال کے ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ بنا اور 18 فروری کو بورڈ نے رپورٹ دی۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کچھ درخواستیں واپس لے لی گئیں تھیں، نواز شریف کی طبی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لندن میں زیر علاج رہے ہیں۔دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میڈیکل کمیٹی نے بتایا کہ ان کو نواز شریف کے علاج کا طریقہ کار نہیں بتایا گیا۔ساتھ ہی چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ ان بیماریوں میں مبتلا ہیں اور صحت مزید خراب نہیں ہوئی تو صورتحال مختلف ہے، ہم میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لے لیتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ ہائیکورٹ نے ان رپورٹس کا جائزہ لیا یا نہیں۔چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ میں نے ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے، آپ نے طبعی بنیادوں پر ہائیکورٹ میں ایک درخواست دی جسے واپس لے لیا گیا، کیا 15 جنوری سے قبل کی نواز شریف کی طبی تاریخ موجود ہے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ پمز ہسپتال کی ایک میڈیکل رپورٹ موجود ہے جب وہ اڈیالہ جیل میں تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے نواز شریف لندن میں بھی زیر علاج رہ چکے ہیں۔اس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نوازشریف کی دوسری میڈیکل رپورٹ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلی رپورٹ میں نواز شریف کی عمر 65 دوسری میں 69 سال ہے، ڈاکٹرنے نواز شریف کی عمر 4 سال بڑھا دی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 17 جنوری 2019 کو نواز شریف کی دوسری میڈیکل رپورٹ آئی، جس میں نواز شریف کا بلڈ پریشر کافی زیادہ ہے، رپورٹ کے مطابق نوازشریف کو گردے میں پتھری، ہیپاٹائٹس، شوگر اوردل کا عارضہ ہے، رپورٹس اس لیے دیکھ رہے ہیں کہ کیا نواز شریف کو یہ چاروں پرانی بیماریاں ہیں، ہم یہ چیک کر رہے ہیں کہ مزید علاج کی ضرورت ہے یا نہیں۔اس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نواز شریف کے گردے کا مسئلہ تیسرے درجے پر پہنچ چکا ہے جبکہ دل کے معائنے کا کہا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو معائنے کا حصہ ہے اس میں دل کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ مریض اہم ہو تو ڈاکٹرز ایک ٹیسٹ کو 10، 10 مرتبہ کرتے ہیں، ڈاکٹرز نے اہم مریضوں کے لیے خود ساختہ پروٹوکولسٹ ٹرم بنا رکھی ہے، یہ اصطلاح اہم مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، اس لیے بورڈ میں شامل ڈاکٹرز نے سینئر ڈاکٹرز پر مشتمل ایک بڑا بورڈ تشکیل دینے کا کہا تھا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف ان تمام بیماریوں کے باوجود 2018 کے انتخابات کی مہم، ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کرتے رہے جبکہ انہوں نے مقدمات کے ٹرائل کا سامنا کیا۔بعد ازاں عدالت نے سماعت کے دوران آج کے دلائل مکمل ہونے پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 مارچ تک ملتوی کردی۔