اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

843,062FansLike
9,979FollowersFollow
561,200FollowersFollow
181,482SubscribersSubscribe

ریاست سے کوئی نہیں لڑ سکتا، تم پاکستان کا حصہ ہو یا افغانستان کا؟

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے قبائلی عوام کو پشتو میں پیغام دیا کہ پاکستان بھی آپ کا، پاک فوج بھی آپ کی، ریاست آپ کے ساتھ ہے۔ مسائل حل ہونے تک پاک فوج چین سے نہیں بیٹھے گی۔ کسی کی باتوں میں نہ آئیں، ایسے ملک دشمن قوتوں کا راستہ روک دیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کا وقت پورا ہوگیا، جتنی آزادی لینی تھی لے لی۔ آپ کے دھرنے کیلئے بھارت اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں را اور این ڈی ایس نے فنڈنگ کی۔ ریاست سے کوئی نہیں لڑ سکتا، بتایا جائے تم پاکستان کا حصہ ہو یا افغانستان کا؟ ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے سوالات اٹھائے کہ پی ٹی ایم بتائے کہ فوج کے حق میں بولنے والا ہی قتل کیوں ہوتا ہے؟ پاکستان اور فوج کے خلاف بولنے والے سے کیوں ملتے ہو؟ منظور پشتین کا کون سا رشتہ دار تھا جو افغانستان میں بھارتی سفارتخانے گیا؟ 8 مئی 2018ء کو طورخم ریلی کیلئے کتنے پیسے دیئے گئے؟ ٹی ٹی پی آپ کے حق میں کیوں بیان دیتی ہے؟ آپ بیرون ملک ہر پاکستان مخالف شخص سے کیوں ملتے ہیں؟ اسلام آباد دھرنے کیلئے "را” نے کتنے پیسے دیئے اور کیسے پہنچے؟ میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ چیزوں کو زوم آؤٹ کرکے دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔ کوئی اعلان جنگ نہیں ہے، پی ٹی ایم سے سوال پوچھے ہیں۔ حکومت پی ٹی ایم، فوج اور کمیٹیوں کو انگیج کرنا چاہتی لیکن یہ کہیں اور گھوم رہے ہیں۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو بیٹھ کر بات کرے۔ اگر ان کے مقامی مسئلے ہیں تو بیٹھ کر بات کیوں نہیں کرتے۔ یہ کس حیثیت سے پاکستانی فوج کیخلاف بات کرتے ہیں۔ جو لوگوں کیساتھ کھیل رہے ہیں، ان وقت ختم ہو گیا ہے۔ پریس کانفرنس کے دوران اہم سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ کیا آئین اور قانون صرف فوج کے لیے ہے، باقی کسی کے لیے نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے افواج نے بہت بہتری لا دی، اب باقیوں نے اپنا کام کرنا ہے۔ فوج آگ سے نکل کر کندن بنی ہے۔ ہر وہ کام کریں گے جو سیکیورٹی کے لیے بہتر ہو۔ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کو کہاں تھا لائن کراس نہ کریں، ان سے میڈیا پر سوالوں کے جواب نہیں بلکہ قانونی طریقے سے لیں گے۔ ان کی جب زبان سیدھی ہو جائے گی، تب انہیں 24 گھنٹے ٹی وی پر بلائیں۔ ایک اہم اقدام کے بارے میں بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں قائم مدرسوں کو باقاعدہ نظام کے تحت لایا جا رہا ہے۔ مدرسوں کے معاملات وزارت تعلیم کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ آرمی چیف کہتے ہیں کہ اپنا فقہ چھوڑیں نہ دوسروں کو چھیڑیں۔ ایک ایسا سلیبس تیار کرنا ہے جس میں نفرت انگیز تقریر نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں 30 ہزار مدرسے قائم ہیں جن میں ڈھائی لاکھ سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ مدرسوں سے فارغ التحصیل طلبہ کے پاس روزگار کے بہت کم مواقع ہوتے ہیں۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معاشرے کو دہشتگردی اور انتہا پسندی سے پاک کرنا ہمارا عزم ہے۔ پاکستانی فورسز نے دہشتگردی کیخلاف ہزاروں قربانیاں دیں۔ اس سے ملک کو بھاری معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا لیکن اس کیخلاف ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ریاست کو دہشتگرد تنظیموں کیخلاف کارروائی کیلئے خطیر مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ دہشتگرد تنظیموں کی فنڈنگ روکنے کیلئے موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف قومی لائحہ عمل ترتیب دیا۔ پاکستان میں کسی دہشتگرد تنظیم کا منظم نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ دہشتگردوں کیخلاف خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر ایک لاکھ سے زائد آپریشن کیے۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 4 دہائیوں میں پاکستان کو مشکل ترین صورتحال کا سامنا رہا۔ نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشتگردی اور انتہا پسندی کی لہر آئی۔ افغانستان کے خراب حالات کا اثر پاکستان پر بھی پڑا۔ پاکستان نے دانشمندی کیساتھ خود کو جنگی صورتحال سے نکالا۔انہوں نے ایک مرتبہ پھر انڈیا کو دو ٹوک پیغام دیتے ہوئے کہا کہ بھارت ہمارے عزم کا ٹیسٹ نہ لے۔ پاکستان جارحیت کے خلاف ہر قسم کے دفاع کا حق رکھتا ہے۔ خواہش ہے بھارت ہمارے اچھے پیغام کو مدنظر رکھ کر امن کی طرف بڑھے۔ کشمیریوں کی حمایت کرنا ہماری رگوں میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کی جوابی کارروائی سے ہونیوالے نقصان کے بارے میں بھی سچ بتائے، ہمارے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے۔ جھوٹ بار بار بولنا پڑتا ہے، سچ ایک دفعہ بولا جاتا ہے۔ دیکھیں گے کہ الیکشن کے بعد بھارت کا رویہ کیسے ہمارے ساتھ چلتا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی تعریف کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا نے جنگی جنون کو ہوا دی لیکن کشیدہ صورتحال میں پاکستانی میڈیا نے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا۔ اگر 1971 میں ہمارا میڈیا موجود ہوتا تو مشرقی پاکستان کبھی الگ نہ ہوتا۔