اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

837,574FansLike
9,976FollowersFollow
560,500FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

اسلام آباد میں پرائیویٹ اسکولز کا فیسوں میں ہوشربا اضافہ ، والدین سراپا احتجاج

اسلام آباد( محمد جابر ) کیپیٹل اسکولز پیرنٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور ریلی بھی نکالی گئی جس میں والدین سمیت بچوں کی بڑی تعداد نے بھرپور شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مختلف مطالبات سامنے رکھے .اسلام آباد ہائی كورٹ نے آرڈر جاری كیا كہ پییرا قواعد تمام متعلقہ فریقوں یعنی پرائیویٹ سكولز، مالكان اور والدین كو شریك كر كے بنائے جائیں۔ ۲۰۱۶ء میں باہمی اتفاقِ رائے سے پییرا قواعدبن گئے۔ لیكن پرائیویٹ سكولوں نے ان قواعد كے خلاف بھی عدالت سے Stay Order حاصل كر لیا جو تاحال اسلام آباد ہائی كورٹ میں زیرِ التوا ہے۔ پییرا قواعد كو معلق كرنے كا نتیجہ یہ ہے كہ اسلام آباد میں كوئی ریگولیٹری اتھارٹی موجود نہیں ہے۔ پییرا كی طرف سے جو تمام نوٹیفیكیشنز جاری كئے جاتے ہیں، چاہے وہ سپریم كورٹ كے احكامات كی پیروی میں ہوں یا كوئی اور آرڈر ہو تو وہ پرائیویٹ سكولوں كی طرف سے اسلام آباد ہائی كورٹ میں لے جائے جاتے ہیں اور نمٹا دیئے جاتے ہیں۔ پییرا ایك غیر فعال ادارہ ہے، جس كے كوئی اختیارات نہیں ہیں كیونكہ اس كے ہاتھ اسلام آباد ہائی كورٹ میں باندھ دیئے گئے ہیں۔ جب سپریم كورٹ كی طرف سے ۲۰ فیصد رعایت اور ۵۰ فیصد گرمیوں كی چھٹیوں كے ری فنڈ كا آرڈر جاری ہوا تو والدین پییرا اور سكول كے درمیان باؤنسنگ بال بن گئے۔ دونوں كو خط پر خط لكھے گئے اور والدین صرف احتجاج ہی كے ذریعے اس عبوری آرڈر كی تعمیل كروا سكے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاكستان، سپریم كورٹ سے درخواست ہے كہ اسلام آباد ہائی كورٹ میں ایك بینچ قائم كرے كہ وہ پییرا كا ملتوی كیس نمبر آئی سی اے ۲۰۱۸/ ۱۱۰نمٹائے اور اسے فعال بناتے ہوئے اس كے قواعد كو نافذ كرائے۔ سكولوں كی طرف سے ٹیكس ادائیگی سے اجتناب برتا جاتا ہے حالانكہ والدین سے ہر ماہ كے واؤچر پر ایڈوانس ٹیكس وصول كیا جاتا ہے۔ فراہم كردہ سہولیات نا كافی ہیں، اضافی چارجز عائد كئے گئے ہیں، جیسا كہ جنریٹر چارجز، لیب چارجز، كمپیوٹر چارجز، ایئر بُك چارجز، بُك پیك چارجز۔ استعمال شدہ كتب كی اجازت نہیں ہے كیونكہ وینڈرز مافیا مالكان كا قبضہ ہے۔ بہت سے والدین كے دو سے زائد بچے ہوتے ہیں اور اس طرح ان كے لیے تعلیم كے اخراجات ناممكن ہدف بن جاتا ہے، ایسا قانون منظور كرنے كی ضرورت ہے كہ خونی رشتہ سے منسلك بہن بھائیوں كو رعایت دی جائے تاكہ زیادہ بچوں كو معیاری تعلیم كے حصول میں معاونت فراہم ہو سكے۔ اساتذہ اہل نہیں ہیں كیونكہ ان كے تقرر كے لیے كوئی معیار مقرر نہیں ہے، اور جو اہل ہیں ان كو كم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ اساتذہ كو زیادہ تر ٹیوشن جاب كی تنخواہوں كی پیش كش كی جاتی ہے جو اكیڈمیوں اور ٹیوشن سینٹرز میں اضافے كا باعث ہے۔ سٹاف كی كمی اور كلاس رومز میں ضرورت سے زیادہ ہجوم ہے۔ طلبہ اور اساتذہ كی كاركردگی كی سكولوں میں باقاعدہ نگرانی كا فقدان ہے۔ سكولوں میں والدین اور اساتذہ پر مشتمل كوئی تعاونی تنظیم نہیں ہے، جوكہ والدین اور اساتذہ كرام پر مشتمل ایك بورڈ ہوتا ہے جو ایك كونسل تشكیل دیتا ہے اور وقتاً فوقتاً نصاب، اساتذہ یا طلباء سے متعلق تحفظات/مسائل كو باہم مل كر حل كرتے ہیں۔ وزارتِ تعلیم محوِ استراحت ہے یا موجود ہی نہیں، چند ہفتوں بعد بیانات جاری كر دیئے جاتے ہیں لیكن آج تك كوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ وزیرِ اعظم عمران خان كو وزیرِ تعلیم كے تقرر پر دوبارہ غور كرنے كی ضرورت ہے۔ میرٹ اور كاركردگی كی بنیاد پر ایسے شخص كو مقرر كرنے كی ضرورت ہے جس كے پرائیویٹ سكولوں كے ساتھ ذاتی مفادات وابستہ نہ ہوں۔ وزیرِ اعظم عمران خان كو تعلیمی اصلاحات كا وعدہ یاد دلایا جاتا ہے جس كے لیے ہم نے انہیں ووٹ دیا تھا۔ سركاری سكولوں كو بلند معیار بنانے اور ان میں سہولیات مہیا كرنے كی اشد ضرورت ہے۔ سركاری سكولوں كی تعداد اس قدر نہیں ہیں كہ سكول جانے والے تمام بچوں كا احاطہ كر سكیں اور تعلیمی معیار اور عملہ كو اس قدر بڑھانے كی ضرورت ہے كہ اس سے پرائیویٹ سكولوں كی اجارہ داری ختم ہو سكے، نیز یہ معاملہ مستقل بنیادوں پر حل كیا جانا چاہیے۔ آرٹیكل ۲۵-اے كے مطابق ریاست ۵ سے ۱۲ سال تك كے بچوں كو مفت تعلیم مہیا كرنے كی پابند ہے۔ ہم ٹیكس دہندگان اور محنت كش پاكستانی شہری اپنے شہری حقوق كا تقاضا كرتے ہیں كہ انہیں پورا كیا جائے۔ ہم آئندہ ہفتے پییرا میں اوپن ہاؤس اجلاس كا مطالبہ كرتے ہیں جس میں وزارتِ تعلیم اور وزارتِ قانون بھی شركت كرے اور عملی اقدام كے ساتھ ساتھ نفاذ كے لیے مضبوط لائحہ عمل سے آگاہ كرے۔