بھارت میں غیر قانونی طور پر تعمیر کیے جانے والے100 میٹر بلند ٹوئن ٹاور دھماکے سے منہدم کر دیے گئے۔
سپرٹیک کو 2005 میں نیو اوکھلا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (NOIDA) نے 14 ٹاور بنانے کی منظوری دی تھی جس میں نو منزلیں تھیں۔ابتدائی منظورشدہ نقشے میں ایک شاپنگ کمپلیکس اور ایک باغیچہ تھا۔ تاہم 2009 میں پروجیکٹ میں تبدیلی کر دی گئی ۔
Reduced to dust in seconds. Will this change anything though? Or will deep rooted corruption mean such towers will continue to mushroom all over with people’s “dream homes” in many cases being reduced to dust? #NoidaTwinTowers #NoidaTowerDemolition https://t.co/Nnophve0RW
— Neha Khanna (@nehakhanna_07) August 28, 2022
علاقہ مکینوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اپیل کی، جس پر عدالت نے اپریل دو ہزار چودہ میں ٹاورز کو گرانے کا حکم دے دیا۔ تاہم سپر ٹیک نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے2021میں نوئیڈا ٹوئن ٹاور کو گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ٹاورز غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے۔ اس کے بعد سپر ٹیک نے سپریم کورٹ سے اپنے حکم پر نظر ثانی کی اپیل کی۔ سپریم کورٹ میں اس کیس سے متعلق کئی سماعتیں ہوئیں۔ سماعت میں ایمرالڈ کورٹ کے رہائشیوں کے تحفظ سے متعلق خدشات بھی شامل تھے، تاہم عدالت نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔
Noida: Cleaning drive under way outside various housing societies, a day after the 100-metre tall Supertech twin towers in were demolished. #NoidaTwinTowers #SupertechTwinTowersDemolition pic.twitter.com/kQrIPaViGP
— TOI Noida (@TOINoida) August 29, 2022
دہلی کے قطب مینار سے اونچی ان دو عمارتوں کو گرانے کے لیے تین ہزار سات سو کلوگرام سے زیادہ دھماکہ خیز مواد کا استعمال کیا گیا تھا۔ ان دو عمارتوں کی تعمیر میں تقریبا آٹھ سو کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔ اور اب اس عمارت کو گرانے میں تقریبا ساڑھے اٹھارہ کروڑ روپے خرچ ہوئے۔
جس کا خرچ ٹاور کی تعمیر کرنے والی کمپنی کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق عمارت کے گرنے سے اٹھنے والا دھواں آسمان میں غبار کی شکل میں تین سو میٹر تک پھیل گیا۔ ارد گرد موجود عمارتوں میں بھی اس کی دھمک محسوس کی گئی۔