اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

834,437FansLike
9,976FollowersFollow
558,900FollowersFollow
169,527SubscribersSubscribe

اورنگ زیب بٹ اور گجرات (ڈاکٹر انصر فاروق)

دوستو آج کے اس دور بھی درد دل رکھنے والے اللہ کے بندے موجود ہیں۔جو معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے لگے رہتے ہیں۔ اور اللہ کی مخلوق کی بھلائی کے لئے اپنا وقت اور پیسہ لگاتے ہیں۔ اور اللہ کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کے لئے محنت میںاپنے آپ کو لگائے رکھتے ہیں۔اور وہ اپنی مد د آپ کے تحت یہ سارے کام کرتے ہیں۔ اور اپنے کاموںمیں وہ بلاتفریق کوسب کوشامل کرتے ہیں۔جس میں نہ کوئی ان کی سیاسی پارٹی ہوتی ہے۔ اور نہ کوئی سیاسی مفاد اور نہ ہی سیاسی پارٹی کے ورکرز یا لوگو ں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی ٰ کی ذات ان کو جس طرح اپنے کرم ورحمت سے نوازتی ہے۔ وہ بھی اسی طرح اللہ کی مخلوق کی بھلائی کے لئے کام کرتے ہیں۔اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے ہر کسی کو نہیںلگاتا ۔ بلکہ وہ اس کے لئے اپنے چند بندوں کو چن لیتا ہے۔ اور اپنی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے اور اپنی مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی ذمہ داری ان کے سُپرد کر دیتا ہے۔اور ایسے لوگ اس شعر کو اپنے اوپر پورا فٹ کر لیتے ہیں
کہ ؎ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہربان ہو گا عرش بریں پر
دوستو اس میں حسن سلوک کی جھلک بھی نمایاں ہے۔ کہ تم لوگوں سے اچھا حسن سلوک کرو ۔ اور لوگوں سے اچھا حسن سلوک ہی اصل میں انسان کے اچھا ہو نے کہ پہچان ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی مخلوق سے اچھا سلوک کرنے کی توفیق اور ہمت عطا کرے ۔ اور انسان کو دوائوں سے زیادہ لوگوں کی دُعائیں پار لگا دیتی ہیں۔آج میں جس شخصیت کے حوالے سے لکھنے کی کوشش کرنے لگا ہوں ۔ میرا اس مہربان سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ کوئی جان پہچان نہیں ہے۔ نہ خود نہ کسی کے ذریعے اور نہ ہی کوئی ملاقات ہے۔ دوستو میں جب بھی کسی موضوع پر قلم اُٹھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ تو حتی الامکان یہی کوشش کرتاہوں کہ صرف سچے اور زمینی حقائق پر ہی لکھوں ۔ میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں ہوتا۔ اور نہ ہی کسی کی تعریف محض تعریف برائے خوشی (خوش آمد)حاصل کرنا ہوتا ہے۔ میری لکھتے ہوئے نہ کوئی جماعت ہوتی ہے۔ نہ کوئی پسند و ناپسند میر ا مقصد بس اچھائی کو سامنے لانا اور برائی کو بھی سامنے لانا ہوتا ہے۔ اور معاشرے میں موجود عام آدمی کی باتیں ۔ اس کا دکھ ، درداور کرب بتانا ہوتا ہے۔ کہ عام آدمی کی سوچ کیا ہے ۔ اس کے مسائل کیا ہیں۔ میری کسی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہوتی۔اور نہ ہی کوئی عناد ۔ میں اس میں کہاں تک کامیاب ہوا ہوں ۔ یا ہوں گا۔ یہ آپ سب اور اللہ کی ذات جانتی ہے۔ جب آپ لوگ مجھے بذریعہ ٹیلی فوناور بذریعہ فیس بک اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنی قلم سے جو لکھ رہا ہوں ۔وہ آپ کو سمجھ آرہا ہے۔ اور پڑھ رہے ہیں۔بعض ادب کی دُنیا کے بڑے بڑے نام مجھے ٹیلی فون کر کے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں ۔ تو میں ان محبتوں کا مقروض ہوجاتا ہوں۔ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ مجھے اور میرا الفاظ کو اس قابل سمجھتے ہیں۔ وگرنہ دوستو میں ابھی طفل مکتب ہوں۔ بلکہ وہ بھی ابھی تک پورا نہیں ہوں ۔ مجھے اس وقت بڑی خوشی ہوتی ہے کہ۔ جب میرا کالم پڑھ کر ہر پارٹی کا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میں اس کی پارٹی کا ہوں۔ دوستو میر ی پارٹی عام آدمی ہے۔ ایک ٹھیلے والا۔ ایک چھابڑی والا۔ ایک پھیری والا ۔ ایک مزدور۔ ایک ہاکراور دیگر جن کی بات ۔ جن کا کرب کوئی نہیں سمجھتا ۔ میں ان سب کی پارٹی کا ہوں۔ بہرحال میں آپ سب کی محبتوں کا مشکور ہوں ۔ اور خاص اپنے ان تمام اداروں کا جو میری آواز آپ تک اور آپ کی آواز میرے ذریعے حکومتی اداروں تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آمین
میں جس شخصیت کا ذکر کرنے لگا ہوں ۔ اُس کو آپ سب جانتے ہیں۔ اور پہنچانتے بھی ہیں۔ اورنگ زیب بٹ ضلع گجرات کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ اورنگزیب بٹ نے ضلع گجرات میں کافی سارے فلاحی و رفاعی کام شروع کر رکھے ہیں۔ جن میںزیب دستر خوان۔ عزیز بھٹی ہسپتال کھانا۔ خوبصورت گجرات۔ رکشہ سکیم۔اور ٹرانسپورٹ سروس ۔ غریب ۔ یتیم ۔ نادار ۔ مستحق لوگوں کے لئے ادوایات کی تقسیم وغیرہ اور اسی طرح کے کئی کام ہیں جو میرے بھی علم میں نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ معلومات میں خود سے حاصل کی ہیں۔ اورنگزیب بٹ صاحب کے کسی سیکرٹری یا ان کے بیٹوں یا کسی اور سے جن کا تعلق کسی بھی طرح ان سے ہو ۔ یا ان کے کسی ڈیرہ وغیرہ سے حاصل نہیں کی ہیں۔اس لئے مجھے ان کے سارے پراجیکٹ کا پتہ نہیںہے۔ ہمارا معاشرہ کسی بھی آدمی کو اچھا کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کوئی نہ کوئی روڑا (رکاوٹ) اس کے کام میں ڈالنا ہم اپنا اخلاقی اور قومی فرض سمجھتے ہیں۔ دوستو اورنگزیب بٹ نے خوبصورت گجرات کا نعرہ لگایا وہ صرف نعرہ نہیں تھا بلکہ اکو عملی جامعہ میں پہنایا اور پہنا رہے ہیں۔ جو کہ اب گجرات میں نظر بھی آتا ہے۔ اکثر گجرات کام سے آنا جانا رہتا ہے۔ پہلے گجرات میں اور اب کے گجرات میں خوبصورتی کے لحاظ سے فرق واضح نظر آتا ہے۔ میں تنقید برائے تنقید کا قائل نہیں ہوں۔ بلکہ تنقید برائے اصلاح کا قائل ہوں۔ اور اگر کسی نے اچھا کام کیا ہے تو ا س کی حوصلہ افزائی بھی کرنی چاہیے۔ کسی بھی سیاسی اور مذہبی پارٹی کی وابستگی کے۔ مگر ہمارے اس معاشرے کی بد صورتی میں اور اخلاقی گراوٹ میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جب کسی انسان سے 99 اچھائیاں کرنے کے بعد ایک برائی سرزد ہوجائے تو ہم اس کا ڈنڈورا پیٹتے ہیں۔ مگر کبھی ہماری نظر ہماری سوچ اس طرف نہیں جاتی کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کے کہنے کے باوجود ہر بات کا علم ہونے کے باوجود دن میں کتنی بار نافرمانی کرتے ہیں۔ خطائیں کرتے ہیں ۔ مگر اس اللہ نے کبھی نہیں کہا کہ توں عیبب دار ہے ۔ جا میرے سامنے مت آنا ۔ بلکہ وہ ذات ہمیں کہتی ہے کہ اے بندے اک بار میری طرف آ کر تو دیکھ مجھ سے معافی مانگ کر تو دیکھ تجھے بخش نہ دوں تو کہنا۔ اور ہم ایک دوسرے کے معاملے میں کیا کر رہے ہیں ۔ سب جانتے ہیں۔دوستو برا تو ہوتا ہی برا ہے اور سب کو نظر بھی آتا ہے مگر ہم اچھے کو بھی برا ثابت کرنے پر تل جاتے ہیں۔ جب سے اورنگزیب بٹ نے خوبصورت گجرات پراجیکٹ پر کام کرنا شروع کیا ہے۔ ہمارے چند تنقید برائے تنقید کے اصول پر کام کرنے والوں دوستوں کا کسی بھی جگہ کہیں کوئی گند پڑا نظر آجائے ۔ تو وہ اس کی تصویر لگا پر نیچے لکھ دیتے ہیں کہ خوبصورت گجرات۔ خواہ وہ گند انھوں نے خود ہی گھر کی صفائی کرنے کے بعد اپنے گھر کے باہر پھینک رکھا ہو۔ تنقید ہی کرنی ہے۔ خبر ہی بنانی ہے۔ افسوس صد افسوس کہ اس کی بجائے کہ اگر وہ بلدیہ کی ذمہ داری ہے تو وہ بلدیہ والوں یا اس کے ذمہ داروں کا لکھیں۔ وہ خوبصورت گجرات کا لکھ دیتے ہیں۔ میں بھی جب گجرات جاتا ہوں ۔ تو کئی دکانوں کے ۔ دفتروں کے ۔ سکولوں کے سامنے کوڑے کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں۔ تو کیا یہ سب کچھ خوبصورت گجرات کی ذمہ داری ہے۔ ان گھر والوں۔ دفتر والوں اور سکول والوں کی کوئی ذمہ داری نہیںہے۔ بعض اواقات مجھے تو یوں لگتا ہے کہ خوبصورت گجرات بنا کر اورنگزیب بٹ نے کوئی اتنا جرم کر دیا ہے۔ جیسے کوئی کسی کو قتل کردیتا ہے۔ تو دوستو یہ روش اچھی نہیں ۔ ۔ جب آپ نے کھاریاں کی طرف آنے کے لئے گجرات شہر سے نکلنا ہے۔ آپ سب نے یہ دیکھا ہوگا ۔ کہ ریلوے پھاٹک سے لے کر آگے روڈ تک ریڑھی والے ٹھیلے والے سب اپنی اپنی دکانیں سجا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی گرین بیلٹ پر شاپنگ بیگ اور باقی گند بکھرا پڑا ہوتا ہے۔ کیا اور نگزیب بٹ کے ذمہ ہے کہ وہ یہ سب گند بھی اکٹھا کرے ۔ یا کہ اس بلدیہ کی ذمہ داری جس نے ان کو یہ ٹھیلے لگا نے کی اجازت دی۔ اور ان سے اس کے پیسے بھی وصول کرتی ہے۔ یا ہوگی۔ اگر وہ ساتھ ان کو اس بات کا پابند بنا دے کہ اپنا اپنا گند ایک ڈسٹ بن (کوڑے دان ) میں ڈالیں ۔ یا بلدیہ والے ہی اس جگہ کوئی کوڑے دان رکھ دیں ۔ تو کیا اس مسئلہ کا حل نہیں نکل آئے گا۔ اور ہم بھی گجرات شہر کو خوبصورت رکھنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ مگر نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہر پارک میں ڈسٹ بن پڑی ہو تی ہیں۔ جس پر انگر یزی میں لکھا ہو تا ہے USE ME یا اس پر اُردو میں بھی لکھا ہوتا کہ کوڑا اس میں پھینکیں۔ مگر ہم میں سے اکثر اس کو استعمال نہیں کرتے ۔ بلکہ کھا پی کہ جس جگہ ہم بیٹھے ہوتے ہیں۔ وہاں ہی پھینک دیتے ہیں۔ اور اس پر ہم فخر محسو س کرتے ہیں۔ یہ تو ہماری اعلیٰ شان ہے۔ ہماری حالت ایسی ہے کہ ہم اپنا گھر ۔ کوٹھی بناتے وقت لاکھوں اور کروڑوںلگا دیتے ہیں۔ مگر اپنے گھرکے سامنے دو ، چار ہزا ر کی نالی نہیں بنواتے۔ سارا پانی گلی میں یا سڑک پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم خود کو درست کر لیں تو سب درست ہو جائے گا۔ اگر اورنگ زیب نے گجرات کو خوبصورت بنانے کے لئے تگ ودو کی ہے ۔ تو اس کی ا س کاوش میں اپنا حصہ ڈالیں ۔ سرکاری محکمے والے ۔ پرائیویٹ اداروں والے۔ گھروں والوں اور گجرات شہر میں کام کی غرض سے آنے والے بھی۔ یہاں کے مکین بھی ۔ اس بات کو بھول کے کہ اس کی وابستگی کس سیاسی پارٹی سے ہے ۔ بلکل ایسے ہی جیسے آپ زیب دستر خوان پر کھانے کھاتے یا عزیز بھٹی ہسپتال کھانا کھاتے یا رزیب روز گار سے رکشہ لیتے ۔ یا زیب میٹرو میں سفر کرتے وقت یا جب ہمیں ادوایات کی ضرورت پڑتی ہے ۔ تو ہمارے پاس ادوایات خریدنے کے پیسے نہیں ۔ تم ہم دوا فری میں حاصل کرنے کی کوشش کرتے وقت کبھی نہیں سوچتے ۔ نہیں دیکھتے کہ اس کا تعلق تو مسلم لیگ ن سے ہے ۔ ہمارا PTI سے مسلم لیگ ق سے ۔ پیپلز پارٹی سے۔ جماعت اسلامی سے۔ ایم کیو ایم سے یا کسی دوسری پارٹی سے اگر گجرات خوبصورت بن رہا ہے تو وہ ہم سب کے لئے ہے۔ ہم نے خود کو بانٹ رکھا ہے ۔ جب کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہمیں مسلمان بننے کا درس دیا ہے اور اسی پر ہم سب کی بھلائی ہے اور ہم سب نے فنا بھی ہو نا ہے ۔ اس روز قیامت مسلمان ہونے کے بارے میں ہی سوال کیا جائے گا۔ نہ کہ کسی سیاسی وابستگی کے بارے میں ضرورت صرف احساس کی انا کو دور کرنے کی ہے۔ باقی ہر انسان سمجھ دار ہے۔ اللہ ہم کو نیک اور اچھے کام کرنے کی ہمت اور طاقت دے۔اور اپنے بندے بنائے۔ آمین