سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جج جمال مندوخیل نے وکلاء کی الیکشن کمیٹی کے سامنے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پیج پھاڑ دو، میں ایک پیج پر نہیں رہنا چاہتا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میری چار قانونی معروضات ہیں، پی ٹی آئی نے قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے پارٹی ٹکٹ پر بیرسٹر گوہر کے بطور چیئرمین دستخط ہیں۔
سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی کا ٹکٹ 22 دسمبر کو جاری کیا گیا تھا اور پارٹی کے انتخابی مقدمے کا فیصلہ 13 جنوری کو سنایا گیا تھا، اس وقت تک بیرسٹر گوہر چیئرمین تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو 26 دسمبر کو روک دیا گیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ غلطی کہاں سے ہوئی اور کس نے کی یہ بھی بتائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل چیز پارٹی ٹکٹ ہے جو نہ ہونے پر امیدوار آزاد تصور ہوگا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اس معاملے پر میں اور آپ ایک پیج پر ہیں۔ جمال مندوخیل نے کہا کہ پیج پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا۔
جج حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ریٹرننگ پولیس افسر نے حامد رضا کی دستاویزات کی تصدیق کی۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے اپنے حلف نامے میں تحریک انصاف کا نظریاتی بیان جمع کرایا۔
جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن ہوتے بھی تو کیا فرق پڑنا تھا؟ ایڈووکیٹ سکندر مہمند نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی کو انتخابی نشان مل جاتا اور وہ الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہو جاتی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ان حالات میں انتخابی شیڈول ہی ڈسٹرب ہو جاتا جب کہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کس قانون کی بنیاد پر تحریک انصاف کو ایسی خصوصی مراعات دی جانی تھی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کا انتخابی معاملہ کئی سالوں سے الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔
الیکشن کمیشن نے 13 جنوری کا حوالہ دے کر معاملہ سپریم کورٹ کو کیوں ریفر کیا؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی الیکشن تو ہوچکے تھے معاملہ ان کی قانونی حیثیت کا تھا۔