قومی اسمبلی کے بعد پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ میں بھی ناراضگیاں اور اختلافات عروج پر ہیں۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور کے خلاف سابق و موجودہ ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی پر مشتمل گروپ متحرک ہو گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ پی ٹی آئی کے ناراض گروپ کو گورننس اور مبینہ بدعنوانی پر تحفظات ہیں۔
ذرائع کے مطابق ناراض وزراء محکموں میں وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور کی غیر معمولی مداخلت پر بھی نالاں ہیں۔ اس حوالے سے جب مشیرِ اطلاعات خیبر پختونخواہ بیرسٹر سیف سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا ہے کہ پارٹی میں کوئی گروپ بندی نہیں ہے۔ بیرسٹر سیف کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈا پور کو تمام ارکانِ اسمبلی کا اعتماد حاصل ہے۔
الیکشن میں کامیابی کے بعد جب وزیر اعلی کے لئے علی امین گنڈاپور کا نام سامنے آیا تھا اس وقت بھی پی ٹی آئی کی صوبائی لیڈر شپ میں شدید اختلاف دیکھنے میں آیا تھا۔ اس وقت کے ذرائع کے مطابق علی امین گنڈاپور کی نامزدگی پر اسد قیصر، مشتاق غنی، عاطف خان اور شہرام ترکئی ناخوش تھے۔
وزارت اعلیٰ کے معاملے پر پی ٹی آئی میں 3 گروپ بنے تھے جن میں مشتاق غنی، علی امین گنڈاپور اور عاطف خان وزارت اعلیٰ کے لیے گروپ کے ساتھی یا خود وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔
ذرائع کے مطابق جب بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈاپور کو نامزد کیا تب بھی عاطف خان سمیت متعدد رہنماوں نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، ٹکٹ کی تقسیم پر بھی عاطف خان نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم پر بھی عاطف خان کو نظر انداز کیا گیا تھا۔
مگر عاطف خان نے میڈیا کو یہ بیان دیا تھا کہ میں وزیراعلیٰ کے عہدے کی دوڑ میں نہیں ہوں مگر عاطف خان نے سوشل میڈیا پر بیانات میں علی امین گنڈاپور کو وزیر اعلیٰ نہ بنانے کا اشارہ دیا تھا، انہوں نے بانی پی ٹی آئی سے اچھی شہرت والے کو وزیر اعلیٰ بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔ عاطف خان نے بیانات میں پرویز خٹک اور محمود خان سے اپنی مخالفت کا حوالہ بھی دیا تھا، عاطف خان نے کہا تھا کہ پرویز خٹک اور محمود خان کی مخالفت پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
تاہم پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخواہ ہمیشہ گروپ بندی کا سامنا کرتی رہی ہے اور اس وقت بھی پارٹی اراکین کا وزیر اعلی پر عدم اعتماد کا اظہار واضح ہے۔