اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

880,937FansLike
10,001FollowersFollow
568,800FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

گریٹ نیشن ۔۔۔ ( مسرت قیوم)

دو طرفہ تعلقات کو بحال رکھنے کا اس سے اچھا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا کہ بارڈر پر گیٹ کی تنصیب کی جائے ۔ہم کئی دہائیوں سے افغانیوں کی مہمان نوازی کر رہے ہیں ۔اس وقت بھی 30لاکھ کے قریب افغانی پاک سر زمیں پہ موجود ہیں لیکن ہم نے آج تک ان کی مہمان نوازی سے ہاتھ کھینچا ہے نہ ہی ہم نے انھیں یہاں سے نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن اسکے باوجود افغان سرحد سے جتھوں کی شکل میں شدت پسند آکر ہماری سرزمین کو لہو لہو کر جاتے ہیں افغانیوں کو یہ بات ےاد رکھنی چاہیے کہ ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے ۔آپ یورپی یونین کو دیکھ لیں یورپی یونین ممالک کی سرحدیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ وہاں پر ہر روز کئی ہزار افراد ایک دوسرے ممالک میں آتے جاتے ہیں لیکن ہر مسافر کے پاس مکمل کاغذات ہوتے ہیں اور وہ بڑے سلیقے سے لائن میں لگ کر کاغذات کی تصدیق کے مراحل پورے کرتے ہیں۔ کسی نے آج تک سرحد پر افراتفری پھیلائی کسی نے احتجاج کیا نہ ہی کسی نے دھرنا دینے کی کوشش کی۔ لیکن طور خم پر ہر روز ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے یوں لگتا ہے جیسے ہم سانپ کو دودھ پلا کر بڑا کر رہے ہیں۔ ہم نے افغانیوں کو روس کے تسلط سے بچایا ہے دوسرا الٹا وہ ہماری کمر میں چھرا گھونپ رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ آج اگر ایک عظیم ملک یا سپر پاور ہے تو اس میں پاکستان کا بھی حصہ ہے۔ ہم نے امریکہ کو عظیم ملک بنانے کیلئے افغانستان میں قربانیاں دیں ہیں لیکن امریکہ بھارت کو بغیر چھلے بادام کھلا رہا ہے۔ پاکستانی قوم ایک عظیم قوم ہے۔ اس نے افغانستان میں تشدد اور طاقت کو ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن آج ہماری قربانیوں کو ضائع کیا جا رہا ہے۔ کبھی بھارت کو خطے میں چودھری بنانے کی باتیں کی جاتی ہیں تو کبھی اسے تھپکی دیکر پاکستان کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مودی تو اس لحاظ سے بڑا منحوس ثابت ہو رہا ہے کہ جہاں پر وہ قدم رکھتا ہے۔ وہی پر گڑ بڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ابھی امریکہ میں گیا تو وہاں پر 50 افراد موت کی بھینٹ چڑھ گئے اس سے قبل وہ پاکستان آیا تھا۔ تو زلزلہ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا مودی کا کسی ملک میں جانا نیک شگون نہیں ہے۔ امریکہ کو بھی یہ احساس کرنا چاہیے کہ اسے عظیم امریکہ بنانے کےلئے کس نے قربانیاں دیں ہیں۔ فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر ہم نے 90 ہزار افراد کی قربانیاں اور ایک ارب سے زیادہ کا مال نقصان برداشت کیا ہے۔ لیکن اوباما مودی کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں امریکہ کو اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔امریکی صدر براک اوباما کے خصوصی مشیر برائے افغانستان اور پاکستان لوریل ملر نے پاک افغان کشیدہ تعلقات کی بحالی کیلئے گذشتہ دنوں اسلام آباد کا دورہ کیا۔ جہاں انھوں نے پاکستانی حکام سے معنی خیز ملاقاتیں کیں۔اپنے دورے کے دوران ڈاکٹر لوریل نے پاکستانی حکام کی ناراضگی کا سبب بننے والے افغان حکام کے اقدامات کی توجیحات پیش کیں، جس کے باعث حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان خلیج میں اضافہ ہوا ہے۔حالانکہ یہ صفائیاں انھیں نہیں بلکہ اشرف غنی کو پیش کرنی چاہیںافغان صدر اگر پاکستان سے امن کے خواہاں ہیں تو انھیں کھل کر اس کا اظہار کرنا چاہیے افغان فورسز کی طورخم گیٹ پر پاکستانی حدود میں بلااشتعال فائرنگ سے گزشتہ روز تین پاکستانی سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گئے‘جبکہ ایک نے جام شہادت نوش کیا ۔ فائرنگ کا یہ واقعہ کراسنگ پوائنٹ پر رات 9 بجکر 20 منٹ پر رونما ہوا۔ پاکستان دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے طورخم کراسنگ پوائنٹ پر گیٹ تعمیر کررہا تھا کیونکہ اس بارڈر پر دہشت گردوں کی سب سے زیادہ نقل و حرکت ہوتی ہے اور حالیہ دنوں میں بیشتر دہشتگرد اسی راستے کو استعمال کرتے پائے گئے ہیں۔ گیٹ کی تعمیر پر گزشتہ دو ماہ سے پاکستان کو افغانستان کی جانب سے کشیدگی کا سامنا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ فائرنگ کا مناسب جواب دیا جا چکا ہے لیکن ابھی تک سمجھ نہیں آئی کہ مناسب جواب کیا ہے افغان فورسز کا سرحد عبور کرکے پاکستان کی حدود میں سکیورٹی فورسز پر حملہ آور ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے افغان حکومت کی جانب سے ایک دن پاکستان کو بھارتی لب و لہجے میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اس سے اگلے روز افغان فورسز کے اہلکار سرحد عبور کرکے ہماری سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتے ہیں اور محفوظ طریقے سے واپس چلے جاتے ہیں جبکہ ہماری جانب سے موثر جوابی کارروائی کا بیان جاری کرکے اور رسمی احتجاج ریکارڈ کراکے خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔
اس وقت امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور انکے فوجی‘ دفاعی اور ایٹمی ٹیکنالوجی میں تعاون کے باہمی معاہدوں سے ہماری سلامتی اور خودمختاری کو ویسے ہی سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ بھارت ہماری سلامتی کیخلاف سازشوں کے جال پھیلانے کیلئے افغان دھرتی اور اسکے انٹیلی جنس اداروں کی معاونت کررہا ہے افغان جنگ کے دوران کرزئی کے دور حکومت میں تو سینکڑوں مسلح افراد جتھہ بند ہو کر افغان سرحد عبور کرکے پاکستان میں داخل ہوتے اور یہاں سکیورٹی اداروں کی چیک پوسٹوں کے علاوہ سول آبادیوں پر بھی فائرنگ کرتے رہے ہیں جسکے نتیجہ میں ہمارے بیسیوں سکیورٹی اہلکار اور دوسرے شہری شہید اور زخمی ہوئے اس وقت بھی یہ صورتحال ہے کہ ملا فضل اللہ سمیت تمام دہشتگردوں نے افغانستان میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنارکھے ہیں جو اعلانیہ افغانستان سے ہمارے ملک میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی وارداتیں کرکے سکون کیساتھ واپس چلے جاتے ہیں جس سے دہشت گردوں کو کابل حکومت کی سرپرستی حاصل ہونے کا تاثر سامنے آتا ہے۔جب یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ افغانستان ہماری سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں میں برابر کا شریک ہے تو پھر وہ بھی ہماری جانب سے اسی سلوک کا مستحق ہے جو ہماری سلامتی کو چیلنج کرنیوالے بھارت کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ افغان فورسز کے اہلکاروں کی پاکستان کی سرزمین پر گزشتہ روز کی فائرنگ بھی ہماری آزادی و خودمختاری پر براہ راست حملے کے مترادف ہے اور ایک قسم کی غیراعلانیہ جنگ ہے اس لیے پاک فوج کو اس کا بھر پور جواب دینا چاہیے

(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت )