اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

886,817FansLike
10,001FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

ملا کھیر تک پیسہ امیر تک

ہم نظریوں کے غلام ہیں؟ یہ سوال ذهین کے خانوں میں کچھ ایسا پیوست ہوچکا کہ شعور کو لا جواب کرکے رکھ دیا تھا اور جواب کی جستجو میں بھٹکتے بهٹکتے آج ایک جواب ہاتھ لگا بهی تو حیران کرکے ہی رکھ چھوڑا کہ ہم کیوں اس سوال کو جواب سے ضرب دے کر حل نہیں کراسکتے؟ یہ دوسرا نومولود سوال ہی دراصل وه نقطہ ہے جو ذهینوں کو جادوئی چھڑی سے سخرذده کرکے ہمیں باور کراتا ہے کہ ہم واقعی نام نہاد نظریوں کے اسیر ہیں، معاشرتی سطح سے لیکر معاشی سطح تک اور خاندانی اقدار سے لیکر آنا کی تہہ تک زندگی کی ہر موڑ پر یہی المیہ ہم پر خنده زن ہے، جہاں تک ہاتھ لگنے والے جواب کی بات ہے جس نے کئی ایک سوال مزید کهڑے کردیئے ہیں شہری علاقے کا ایک مکان میں رہائش پذیر تین دوست ہیں، عیسائی ہندو اور تیسرا مسلمان تینوں نے ذاتی کاموں کے لیئے مشترکہ طور پر ایک موٹرسائیکل خرید لی، طے یہ پایا کہ گاڑی حسب معاہده تینوں دوست ایک ایک دن ترتیب وار استمال کرینگے، پہلا دن عیسائی کا تها وه موٹرسائیکل لے کر چرچ عبادت کرنے گئے سروس سے فارغ ہوکر سوچا کیوں نہ گاڑی کو بهی بابرکت بنایا جائے؟ یہ سوچنا تها کہ قریب سے ایک صیلبی نشان والی سٹیکر لے کر ہیڈ لائٹ کے عین درمیان چسپاں کردیا اور خوشی خوشی دوستوں کو دکهانے پہنچے دونوں نے صلیب بارے پوچھا تو کہنے لگے یار جب چرچ لے گیا تو سوچا کیوں نہ گاڑی کو بهی اپنا ہم مذہب بناوں اس لیئے نشان صلیب لگا کر اسے عیسائی بنادیا، دونوں چهپ ہوگئے دوسرے دن ہندو کی باری تهی گاڑی پر سینہ تان کر بیٹھے کک ماری اور ٹرٹرٹر…کرکے مندر پوجا کرنے پہنچے جب فارغ ہوئے تو خیال آیا کہ کیوں نہ موٹرسائیکل کو بھی ہندو بنایا جائے اور جلدی سے ہیڈ لائیٹ پر عین صلیب کے نشان کے اوپر سرخ تلگ لگادی اور جلدی جلدی کام نمٹا کر گهر پہنچے، عیسائی و مسلمان نے سرخ تلگ بابت پوچھا تو جل تهل کر کہا بهائی یہ موٹرسائیکل مشترکہ ہے میں بهی حقدار ہوں اس لیئے ہندو بنایا، دونوں ایک سائیڈ ہوگئے، اور پھر تیسرے دن مسلمان نہا دھو کر نماز جمعہ کے لیئے موٹرسائیکل پر بڑے جامع مسجد روانہ ہوئے، نماز سے فراغت کے بعد سوچ موٹرسائیکل کو بابرکت بنانے گی تهی مگر نہ قرآن اور نہ قرآنی آیات لگاسکتا تها اس لیئے سوچتے سوچتے بازار پہنچا اور تهوڑی دیر بعد محلے میں ایف سولہ طیارے کی آواز مستانہ سے داخل ہوئے قریب سے گزرنے والے پڑوسیوں کی کانوں میں انگلیاں انگلیاں ڈالنے کو نظرانداز کرتے ہوئے گهر میں داخل ہوئے دونوں دوستوں نے عجیب و غریب حرکت کی وجہ پوچھی تو کہا یاروں ہم دوست اس گاڑی کے برابر حصہ دار ہے پہلے دن عیسائی گرجے لے گیا جہاں سے عیسائی بن کر لوٹا، کل تم مندر لے گئے تھے تو واپسی پر ہندو بنا کر چھوڑا آج جب میں مسجد لے گیا تو سوچا میں مسلمان ہوں تو گاڑی بهی مسلمان ہونی چاہیئے اس لیئے ادها سیلنسر کاٹ کر اس کا ختنہ کردیا. .. آج اسی ملنے والے جواب نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے اگر چہ کچھ تشفی ہوئی ہے اس حقیقت کے ساتھ کہ ہم واقعی نظریوں کے غلام ہیں… اگر نہ ہوتے تو آج ایک اسلامی جمہوریہ پر دہشت،خوف،بدامنی،بدعنوانی،کرپشن، خون ریزی واقرباپروری کا راج نہ ہوتا، یہاں فحاشی و عریانی کا سیلاب گهروں،گلیوں و سڑکوں پر نہ بہتا، یہاں کے ایوانوں میں انگوٹھا چھاپ لٹیرے رہبروں کے روپ میں نہ ہوتے، یہاں غربت خودکشیوں کو جنم نہ دیتا، یہاں پیٹ کی آگ بجھانے کے لیئے حوا کی بیٹیاں سرعام نیلام نہ ہوتی، یہاں ووٹ کوڑیوں کے مول نہ بکتے، یہاں طبقے نہ بنتے، جج بے ضمیر اور وکیل دلال نہ ہوتا، صحافی قلم فروش نہ ہوتے، یہاں ملا کهیر تک اور پیسہ امیر تک محدود نہ ہوتا… یہ سب کچھ نہ ہوتا اگر ہم نظریہ پرست نہ ہوتے؟ یہ نام نہاد نظریئے ہی ہمارے امنگوں کے قاتل ہیں، ہماری مت اس کی غلامی نے ہی ماری ہے تهبی دنیا کی سب سے طاقتور عسکری ایٹمی قوت کے بیس کروڑ عوام کئی دہائیوں سے ذلیل و خوار ہورہے ہیں، وطن عزیز کی سونا اگلتی زمین، ٹریلین ڈالر کے خزانے سینے میں چهپائے صحرائیں، کهربوں ڈالر کی معدنیات سے بهرے فلک بوس پہاڑ، اربوں ڈالر کی نمک، کهربوں ڈالر کا کوئلہ، گیس و تیل، چار حسین موسموں کا میلاپ اور قدرت کی شاہکار و تحفہ محصولات کی شہہ رگ گوادر بندرگاه.. محتصر یہ کہ اگر کبھی ملکی وسائل کا حساب لگانے کی کوشش کی گئی تو یقیناً بہت سے کمپیوٹر آف اور دماغ ماوف ہوجاینگے اگر ان سپر ٹریلین ڈالر کے قدرتی وسائل کو قومی سوچ کے دائرے میں بروئے کار لایا گیا تو ہم دنیا کے کئی ایک چهوٹے ممالک کهڑے کهڑے ان کے وسائل سمیت خرید سکتے ہیں مگر من حیث القوم چونکہ ہم نظریاتی طور پر دیوالیہ ہیں اس لیئے 69 سالوں سے ناکامی ہمارا منہ چهڑا رہی ہے اور خود کو عالمی سودخوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے جو ہمیں UNO’ IMF اور ورلڈ بینک کے خود ساختہ ناموں سے کهانے میں مصروف ہیں آج ہم اگر جیالے نہ ہوتے، لیگی نہ ہوتے، جنونی نہ ہوتے، سرخ پوش نہ ہوتے، جمعاتی نہ ہوتے، جمعیتی نہ ہوتے، مہاجر نہ ہوتے، پٹهان، پنجابی، سندھی، بلوچی،’ کی بجائے ایک پاکستانی ہوتے تو یقیناً خوشحالی ہمارے اردگرد رقصاں نظر آتی مگر ہم لسانی نام نہاد خودساختہ سیاسی و مذہبی نظریوں کے غلام ہیں اس لیئے نحوست و بدحالی ہم پر سایہ فگن ہے، قارئین کرام اس سوہان روح موضوع پر لکھنے کے لیئے اتنا کچھ ہے کہ قلم حوصلہ ہار جائے گا مگر بحث ختم نہ ہوگی.. تو کیوں نہ خود کو ایک اور دهوکہ دیں یہ سوچ کرکے گزرے 69 سال جیسے تیسے تهے گزع گئے مگر آنے والی نسلوں کو دینے کے لیئے ہمارے گلے میں نظریوں کی غلامی کے طوق کے علاوه بهی کچھ ہے؟ اگر نہیں تو کیوں نہ قومی و مذہبی نظریوں کی آڑ میں نام نہاد نظریوں کا ہی گلہ گهونٹے؟ جس کے لیئے کسی چهری کی نہیں بلکہ ہمت و عزم حلوص دل و عقل اور ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے جو آج ہر پاکستانی میں کچھ نہ کچھ موجود ہے بس ایک عہد نو کے لیئے ہمیں اٹهنا ہوگا اس عزم کے ساتھ کہ آج کے بعد نہ میں لیگی، نہ جیالا، نہ جماعتی، نہ جنونی، نہ جمعیتی، نہ سرخ پوش، نہ مہاجر، نہ سندھی، نہ بلوچی، نہ پنجابی نہ پٹهان بلکہ ایک سچا محب وطن پاکستانی ہوں یقیناً جب تک من حیث القوم ہم ایک قوم بننے کا عزم لیکر آگے نہیں بڑهتے تب تک منزل سراب رہے گی، اپنے گلے سے نظریوں کی غلامی کا طوق اتارنے کے لیئے مل کر ایک قومی نظریہ اپنانا ہوگا تب ترقی و خوشحالی ہمارا انعام اور آنے والی نسلوں کو دینے کے لیئے ہمارے پاس ایک خوشحال و تہذیب یافتہ پاکستان ہوگا…!!