اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

879,834FansLike
9,999FollowersFollow
568,800FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے کہ مختلف اداروں کا ریکارڈ تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ جے آئی ٹی کے حوالے کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جا رہا ہے۔

سپریم کورٹ میں فوٹو لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کی درخواست پر پاناما عملدرآمد بینچ نے سماعت کی۔سماعت کے دوران جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو تصویر لیکس معاملے پر رپورٹ پیش کی، جس کا ججز نے جائزہ لیا۔جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیکس سے متعلق بیشتر الزامات مسترد کردیے ہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا کہ ان کو جے آئی ٹی کا جواب دیکھنا چاہیے، کیا جے آئی ٹی کا جواب پڑھے بغیر جواب دینا چاہتے ہیں؟جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو اعتراض نہ ہو تو خواجہ حارث کو رپورٹ دی جاسکتی ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل رپورٹ کا جائزہ لے لیں، جس نے تصویر لیک کی اس کے خلاف کیا کارروائی کی جاسکتی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے کہا کہ جے آئی ٹی کو رپورٹ پبلک کرنے پر اعتراض نہیں۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو تصویر لیک ہونے کے معاملے پر رپورٹ کا جائزہ لینے کی ہدایت کردی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی ڈیڈ لائن میں کام کررہی ہے، اگر کارروائی میں رکاوٹ ڈالی گئی تو جے آئی ٹی کیسے کام کرے گی، جے آئی ٹی نے محدود وقت کے اندر کام کرنا ہے۔جبکہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تمام گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے جاتے ہیں اور جے آئی ٹی کو ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی شکایت میں سنجیدہ الزامات لگائے ہیں اور متعلقہ ریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا شکوہ کیا گیا ہے، جے آئی ٹی نے کہا ہے کہ ریکارڈ ٹیم کے حوالے کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرنے والے سپریم کورٹ کو خط لکھتے ہیں جس کے بعد وہ خط میڈیا کو جاری کردیے جاتے ہیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ‘اٹارنی جنرل صاحب حکومت کو یہ زیب دیتا ہے کہ جے آئی ٹی کے خط کو میڈیا کے حوالے کرے؟جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ ‘اٹارنی جنرل آپ فیڈریشن کی نمائندگی کریں نہ کہ ایک شخص کی،حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا بھی مسئلہ ہے، ویڈیو ریکارڈنگ بیان کا ٹرانسکرپٹ تیار کرنے کے لیے کی جاتی ہے، جے آئی ٹی میں پیش ہونے والوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کو روکا جائے کیونکہ جے آئی ٹی کی ریکارڈنگ لیک ہوسکتی ہے۔جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سیکشن 162 کے تحت ویڈیو ریکارڈنگ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔جبکہ جسٹس اعجاز الالحسن نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کسی گواہ کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتی۔بعدازاں عدالت نے اٹارنی جنرل اور حسین نواز کے وکلاء کو جے آئی ٹی کے جواب پر جواب الجواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 14 جون تک ملتوی کردی۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔گذشتہ دنوں وزیراعظم کے بڑے صاحبزادے حسین نواز کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر لیک ہوئی تھی جس میں انھیں ممکنہ طور پر جے آئی ٹی کے سامنے بیٹھے ہوئے دکھایا گیا تھا۔