اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

885,652FansLike
10,000FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

فوجی عدالتوں میں سولینزکا ٹرائل:سپریم کورٹ بیچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا

ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کرنیوالا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا ، حکومت کے اعتراضات کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا ۔

فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت دوبارہ شروع کر دی ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ سماعت کر رہاہے، جس میں اعجاز الاحسن، منیب اختر، جسٹس مطاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں ، چیئر مین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا ہے کہ ابھی ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کر کے آ رہے ہیں ،وکیل پی ٹی آئی حامد خان سے مکالمے میں کہا کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف قسم کی استدعا کی ہیں ، جس پر حامد خان نے کہا کہ میں صرف فوجی عدالتوں والی استدعا پر فوکس کروں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو ہم بعد میں دیکھیں گے ۔

درخواست گزار جنید رزاق کہ میری مؤکل کے بیٹے کا معاملہ فوجی عدالتوں میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے۔جسٹس منیر اختر نے کہا کہ کیا آپ کا مطلب ہے کہ ایک فوجی آفیسر کا بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا ہے؟

ملٹری کورٹس میں سویلین ٹرائل کیس،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت2 ججزکےاعتراضات

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اگر ٹرائل سے میرے حقوق متاثرنہیں ہوتے تو پھر عدالت میں کیس چل سکتا ہے ، بینکنگ کورٹ یا اےٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے ہیں ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل ہوا ہے ، جس پر سلمان اکرام راجہ نے کہا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا ۔

چیف جسٹس نے بھی کہا کہ آپ بھی مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہو گا تو یوں ہو گا ، ایسے تو کل فوجی افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی، ہمارےپاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے متعلقہ بات ہی کریں ۔

سلمان اکرام راجہ کا کہنا ہے کہ سویلینز کی بھی دو اقسام ہیں ، ایک وہ سویلین کو جو آرمڈ فورسز کو سروسز فراہم کرتے ہیں، فورسز کو سروز دینے والے سویلین فوجی ڈسپلن کے پابند ہیں ، دوسرے سویلین وہ جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، دوسرے سویلینز کا ٹرائل 175 تین کے تحت تعینات جج ہی کر سکتا ہے ، جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں ؟۔سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ کئی عدالتیں اور ٹریبونل جنکا آرٹیکل 175 تین سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے کہیں چیلنج نہیں ہو سکتے ہیں ؟۔

آج پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے،لطیف کھوسہ

سلمان اکرم نے کہا کہ فیصلے آرمی چیف یا انکی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہو سکتے ہیں، جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ متوازی نظام ہے ، عدالت نہیں کہہ سکتے ؟ ۔ جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے ، آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہو تا ہے ، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں ہے ۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں ایمرجنسی یا بنیادی حقوق معطل ہوں تو کیا پھر سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے ؟، فیصل صدیق نے کہا کہ دنیا میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل ہوتا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا ہمارےخطے میں سویلین کا فوجی ٹرائل ہوتا ہے ؟۔

سلمان اکرام نے جواب دیا کہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا ، جسٹس عمر عطا ءبندیال کا کہنا تھا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں ، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔

سپریم کورٹ کے پاس انصاف کا مکمل اختیار ہے،چیف جسٹس

حکومت نے سماعت کرنے والے لارجر بینچ پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی مرضی اور خواہش کی بنیاد پر بینچ نہیں بن سکتے ہیں ، جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کس بنیاد پر بینچ کے معزز رکن پر اعتراض اٹھا رہے ہیں ، میں نے پہلے دن سے ہی کہا تھا کہ کسی کو اگر بینچ پر اعتراض ہے تو وہ بتا دے ۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت ہے کہ جسٹس منصور پر اعتراضات اٹھایا جائے، میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں، حکومت کیجانب سے اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ  نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ،7 رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد چیف جسٹس نے سماعت کچھ دیر کیلئے ملتوی کر دی ۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں ؟، آپ ایک اچھے انسان اور اچھی ساکھ کے وکیل ہیں۔ 

وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلباء سے مذاق میں ایک بات کہی تھی ، یعنی انہوں نے کہا کہ اگر کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کر دو، اب وفاقی حکومت بھی یہی کر رہی ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کبھی آپ ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، کرنا کیاچاہتے ہیں ؟

 ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہر ہ کیا، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی ، کس نے یہ نہیں کہا کہ 90 دنوں میں انتخابات آئینی تقاضہ ہے ، فیصلے رپ اصولی طور پر کوئی اعتراض نہیں تناسب پر اعتراض اٹھا یا گیا ، موجودہ کیس سادہ ہے ، آپ بنیادی حقوق کیسے ختم کریں گے ؟