اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

887,663FansLike
10,001FollowersFollow
569,100FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

مٹی پائو لیکس !

شمع جونیجو …. شمع بینی
میری بٹوں سے بچپن ہی سے بنتی ہے، پولیس سرکل میں بھی میری بہترین دوستوں میں سے ایک دوست مسز مرزا شکیل بھی بٹ ہی ہیں جس سے 19 سالہ دوستی کے بعد میں بٹوں پر ایک کتاب لکھ سکتی ہوں کہ بٹوں کو اپنی عقل کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ”وڑھتی“، لیکن اس کے بعد ایک اور چیز آتی ہے جس کو ”لک “ کہتے ہیں۔ نواز شریف کی تیسری گورنمنٹ کا سب سے بڑا ”لک “عمران خان ہیں، اگر عمران خان نہ ہوتے تو میاں صاحب کی گورنمنٹ مذاق رات جیسے کارناموں سے شاید دو سال بھی مشکل سے پورے کرتی، لیکن یہ عمران خان ہی ہیں جس نے پہلے دھرنا اور اب پانامہ لیکس کا ستیا ناس کرکے وہ طوفان جس نے پوری دنیا میں ”پوٹن اینڈ ڈرٹی ڈزن“ کو بھونچال میں ڈال دیا تھا اور جس کی وجہ سے میاں صاحب کو ”پینیک“میں قوم سے خطاب میں ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کو جوڈیشل کمیشن کا نام دینے کا اعلان تک بھی کرناپڑا، اب لگتا ہے کہ ریٹائرڈ بیورو کریٹس یا ججوں کے ناموں ہی کے رولے میں الجھ کے مٹی پاو¿ لیکس ہوجائے گا اور اپنے خیالی وزیر اعظم کے قوم سے ”آو¿ٹ ڈور“ خطاب کے بعد استعفیٰ کا مطالبہ بھی مطالبہ ہی رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کے وہ منسٹرز جو وٹس ایپ پر پچھلے ہفتے سے”سین“ ہی نہیں ہورہے تھے اب دو دن سے ”قوم کے خطاب“ اور ”مین کائنڈ اینجل“ کے ”میم والے“ لطیفے بھیج رہے ہیں۔ اس سارے قضیے کو میں میاں صاحب کا گڈ لک کہوں یا 63 سالہ امیچور عمران کی نا سمجھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پانامہ پیپرز کے فوری بعد میاں صاحب جس جھٹکے میں آگئے تھے، وہ پیپلز پارٹی کی ”فرانزک آڈٹ“ کی ڈیمانڈ اور عمران خان کا ”قوم سے خطاب“ کے شوشے کے بعد سے بہت حد تک سنبھل چکے ہیں کہ یہ لیکس بہت حد تک مٹی پاو¿ لیکس بن کے اگلے ہفتے تک ٹھنڈے پڑجائیں گے اور مجھے نہیں لگتا کہ تب تک یہ رولا دوبارہ اٹھے گا جب تک نادیدہ ہاتھ اسے اٹھانے کی کوشش نہ کریں، لیکن وہ انگلی اٹھانے والے ہاتھ الگ الجھے ہوئے ہیں کہ بنی گالہ کے نادان دوست پر مزید رقم ضائع کریں یا لندن میں بیٹھے ہوئے دانا دشمن کے بیٹے پر پیسہ لگا دیں جو کپڑے بھی ڈیڈی یا پھوپھی کی مرضی کے بغیر نہیں پہن سکتا، تیسرا آپشن ضمیر جاگ پارٹی کی لانچ ہے لیکن وہ کمال بھی ابھی ٹیسٹ ٹیوب ہے تو الٹرنیٹ کہاں سے لایا جائے؟ اور یہی سب سے خطرناک صورتحال ہوتی ہے جب آپ کے پاس کوئی الٹرنیٹ نہ ہو کہ ایک سے جان اگر چھوٹ بھی جائے تو دوسرا آپشن اس سے بھی بدتر ہو۔ مجھے اسی سلسلے پر پچھلے سال برطانیہ کے سابق ڈیفنس منسٹر ڈاکٹر لیام فاکس کی ملاقات کی بات یاد رہی آرہی ہے کہ ”مغرب اٹھاون ٹو بی کو مارشل لاءکا الٹرنیٹ سمجھتا تھا جو کہ آپ کے اپنے سیاستدانوں نے ختم کرکے اپنے لئے مشکلات بڑھا دیں ہیں۔“ چوہدری نثار کی طرح میں بھی اس کنورسیشن کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتی کہ وہ سب کچھ میں نے پہلے ہی اکیڈمیا پر شائع کردیا ہوا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ واشنگٹن یا لندن میں بیٹھے ہوئے تھنک ٹینکس اس بات پر فرسٹریٹڈ ہیں کہ پارٹیوں کے اندر سے ”ہارس ٹریڈنگ“ کے نام پر ہی سہی، لیکن نئی آبیاری ہوتی تھی جو کہ اب بلاک ہوچکی ہے۔ نئی لاٹ سامنے آ نہیں پارہی اور پرانی لاٹ جا ہی نہیں رہی، لہٰذا تبدیلی آئے تو کیسے آئے؟
دوسری طرف امریکہ میں پھر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر سوال اٹھنے لگے ہیں، ملیحہ آنٹی نے اس کو دوہرا معیار کہہ کے ایک امپریسو تقریر تو کر ڈالی لیکن وہ بہرحال ناک بھوں چڑھا کے بیٹھے ہوئے ان ڈپلومیٹس کو کنوینس نہیں کرسکیں جو کہ اسلام آباد سے آنے والی ”ڈنڈا بردار سیویجز“ کی ریلیز کی گئی ویڈیوز کے بارے میں انگشت بداماں ہیں کہ یہ کیسی حکومت ہے جو ”سیوےجز“ کو دیگوں سے خانے بھجوا کے خود اجازت دیتی ہے کہ آو¿ اور ڈنڈے مار مار کے اربوں کا انفرا سٹرکچر برباد کرو؟
مجھے سب سے زیادہ فرسٹریشن اس بات پر ہوتی ہے کہ ڈرٹی پالیٹکس کرنے والے ڈرٹی پالیٹشنز نے پاکستان کی ریاست کی رٹ ختم کرکے جو ایک مذاق بنایا ہوا ہے اس کے بعد میں ضرور اپنی ہی ریسرچ کو موڈیفائی کرنے پر مجبور ہوگئی ہوں کہ کیا واقعی پاکستان کی سول گورنمنٹ اپنی رٹ کو برقرار رکھ سکتی ہے یا اس کو برقرار رکھنے کےلئے ”پاور اینڈ گورننس“ کے نام پر اب اداروں کا شاید اس ہی سال ایک آخری ٹکراو¿ نہ ہوجائے جو کلبھوشن یادیو کے بعد ہونے والی ”اگنورینس“، لاہور دھماکے کے ذمہ داروں کے ”سہولت کاروں“ کو پکڑنے والے آپریشن یا اس کے دوران ہی دارالحکومت میں ہونے والے ایک اجتماع کو ”نثار لیکس“ کے مطابق پنجاب حکومت ہی کی طرف سے گرین سگنل ملنے والے انکشاف کے مطابق گہرا ہوگیا ہے؟ کیونکہ انگلی اٹھانے والوں کو غصہ ہے اور بہت زیادہ ہے، چاہے وہ ڈنڈے والوں کی، پنڈی والوں کی گالیوں کا ہو یا ڈپلومیٹک لیول پر” را“ کے ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد کی خاموشی پر، لیکن جو کچھ ہے پریشر ککر کے اندر ہی پک رہا ہے کیونکہ آئین کسی تیسرے آپشن کی اجازت نہیں دیتا۔ مجھ جیسے پولیٹیکل سائنٹسٹ ان کو مزید تپا دیتے ہیں کہ اگر آپ بھی ٹھیک سوٹی دکھائیں تو کیا کسی کی مجال ہے کہ آپ کو ڈنڈا دکھائے؟ لیکن ان کی طرف سے کاو¿نٹر سوال پوچھا جاتا ہے کہ جو آئین بنانے والے ہیں جب ان ہی کی جانب سے ڈرٹی پالیٹکس کے نام پر ریاست میں بھی گند پھیلایا جائے تو پھر کیا کیا جائے ؟ اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے مہینے جن دنوں ڈی چوک سے عاشقان رسول اسلام آباد اور پنڈی کے سارے بڑوں کی ماں بہن ایک کرنے والی ڈنڈوں والی ویڈیوز ریلیز کر رہے تھے، میں اسپین اور اس کے آس پاس کے ملکوں میں منرووسو مشن پہ کرنے والے انٹرویوز کے علاوہ اس بات پر بھی ریسرچ کر رہی تھی کہ پاکستانی کرپشن کے ”ایک حمام میں سب ساتھ ننگے“کیسے ہوتے ہیں اور ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کے ”پاجاموں کو لیک“ کیوں نہیں کرتے؟ موراکو کے حمام اس معاملے میں میری ”جنرل نالج“ کو انہانس کرنے میں بے حد کار آمد ثابت ہوئے اور میں نے اس بات کو ڈسکور کیا کہ آپ کی برہنگی کو کوئی ”کیوریئس کیٹ“ تب ہی ڈسکور کرتا ہے اگر آپ ”پرائیویٹ“ حمام میں کرپشن کی برہنگی چھپانے کےلئے جائیں، لیکن اگر آپ پبلک حمام میں سب کے ساتھ مل کے ننگے ہیں تو پھر سب آپ کے ساتھ ہوں گے اور سب ایک دوسرے کی برہنگی چھپانے کی کوشش کریں گے۔ ان حماموں سے کبھی کسی کا پاجامہ لیک ہونے کی خبر نہیں آتی اور اگر آتی بھی ہے تو فرانزک آڈٹ کے شور میں گم ہوجاتی ہے اور پاکستان سے کرپشن نہ ختم ہونے کا بنیادی سبب ہی یہی ہے کہ یہاں کرپشن کے حمام میں سب ننگے ہیں، لہٰذا لیکس پانامہ سے ہوں یا پنڈی سے، بگڑنا کسی کا کچھ بھی نہیں ہے اور سب کچھ ایسے ہی چلتے رہنا ہے کیونکہ اس فلم میں سب ولن ہیں چاہے وہ سوئس اکاونٹس ہوں، اربوں کے لیکس ہوں یا ون نائٹ اسٹینڈ، لہٰذا پانامہ لیکس میں پھنسنے والے مطمئن ہیں کہ اخلاقی پریشر کی اگر بات کی جائے تو وہ صرف مالی کرپشن پر ہی لاگو نہیں ہوتا، اخلاقی گراﺅٹ بھی ایک بہت بڑی کرپشن ہے۔ آئس لینڈ کے وزیر اعظم کے استعفیٰ یا ڈیوڈ کیمرون کے گھر پر مظاہرین کا تذکرہ کرنے والے یہ بنیادی بات بھول جاتے ہیں کہ عوام ان کی ٹیکس چوری نہیں بلکہ جھوٹ بولنے پر نالاں ہیں، یہ وہ معاشرے ہیں جہاں کلنٹن کے لیونسکی سے معاشقہ گناہ نہیں تھا لیکن اس کو چھپا کے جھوٹ بولنا اس سے بھی بڑا گناہ تھا، لہٰذا دوسرے کے گھروں پر پتھر پھینکتے ہوئے آپ یہ یاد رکھیں کے یاد ماضی بھی آگے چل کے ایک ایسا عذاب نہ بن جائے جس سے حافظہ چھیننے سے بھی جان چھوٹ کے نہ بنے، کیونکہ آس پاس ہی بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو کہ ”وقت“ آنے پر62، 63 کے تحت چمتکار دکھانے کو تلے ہیں اور یہی بات ہے کہ جماعت میں یو کے سے آنے والے ”گھس بیٹھئے“ کے بعد نمبر دو کی پوزیشن کا جو انت پڑا ہوا ہے، اس کا انوکھے لاڈلے کے علاوہ سب کو علم ہے کہ جھگڑا کس بات پر ہے،لیکن انوکھے لاڈلے کو اگر ”فور سی“ کرنا آتا تو انگلی اٹھانے والے آج یوں دانت نہ پیس رہے ہوتے کہ غلط گھوڑے پر داو¿ لگا کے سب کچھ گنوا بیٹھے۔
دوسری طرف ضیاصاحب یہ سمجھتے رہے کہ کرپٹ پالیٹیشنز پر ریسرچ کرتے کرتے میں بھی شاید ٹریڈنگ والا ہارس بن گئی، وہ اس تمام عرصے میں مجھے ”ابن بطوطہ کا زنانہ ورژن“ کہہ کے ڈھونڈتے رہے کہ یہ خاتون گئی کس ملک میں ہیں، لیکن میں جنیوا میں ہوتی تو اسپین کا بتاتی اور اسپین میں ہوتی تو مراکش کا،لہٰذا تنگ آکے انہوں نے خبریں میں ”بھگوڑی جونیجو کا تلاش گمشدہ“ کا اشتہار چھپوانے کا ارادہ کیا لیکن لیکس صرف پانامہ ہی میں نہیں ہیں، خبریں لیکس سے بھی مجھے جیسے ہی اس بات کی سن گن ملی، میں نے ان کو ”نا معلوم“ نمبروں سے فون کرکے کہتی کہ ”سر آئی ایم یور گرل“، میں کچھ ”پٹھے“ کاموں میں ضرور پھنسی ہوں، لیکن بھاگ نہیں رہی وہ جب مجھ سے اس کی تفصیل پوچھتے تو میں پھر لائن کاٹ کے غرق ہو جاتی کیونکہ ضیاصاحب کو خبر دینے کا مطلب دوسرے دن خبریں میں خبر پڑھنے کے مترادف ہوتا ہے سو میں غائب ہی رہی۔
میرے پاس ان دو مہینوں کا انسٹا گرام پہ اپنی لاس پالماس بیچ یا مراکش کی تصویروں کو شیئر کرنے کے علاوہ معلومات اور طیّب بھائی ( فورس کمانڈر منرووسو مشن جنرل طیب اعظم) سمیت کئی اقوام متحدہ کے اہلکاروں کے انٹرویوز کا ایک پلندہ اور بین الاقوامی سازشوں کی کنسپاریسی فائنڈنگس ہیں جس میں پاکستان کے کچھ اداروں کی ”پروٹو ٹائپ امیجنگ“ کیوں کی جا رہی ہے؟
لیکن کبھی کبھی آپ کچھ ایسے کام بھی کرتے ہیں جو کہ کبھی بھی میڈیا یا پبلک پر لیک نہیں کرسکتے۔ انٹیلی جنس اور سیکورٹی میں پی ایچ ڈی کرتے ہوئے مجھے اپنے سپروائزرز سے سب سے زیادہ جو بات سننی پڑ رہی ہے وہ یہی ہے کہ تم جرنلزم اور ریسرچ کو ساتھ نہیں چلا سکتیں، تمہیں یا خاموشی سے ریسرچ کرنی ہوگی یا میڈیا لائف گزارنا ہوگی۔لہٰذا میں اب پچھلے دو مہینے سے ”سیکریٹس“ رکھنا سیکھ رہی ہوں، میں نے ان دو مہینوں میں سرجری کے باوجود سفر کرکے اٹلانٹک سمندر کے ساتھ والے ریگستانوں پر اپنی آنکھوں سے منرووسو مشن کو کولیپس ہوتے دیکھا اور اس بدترین انٹرنیشنل ڈپلومیٹک ڈیڈ لاک پر پیٹ میں شدید مروڑ پڑنے کے باوجود ایک ٹویٹ تک نہیں کیا کہ اصل ڈپلومیٹک کرائسس ٹویٹ کرنے والے نہیں ہوتے۔
ڈپلومیسی میں ماسٹرز کرنے کے دوران کرنے والی ”کرائسس ورک شاپس“ اور اصل گلوبل پالیٹکس کے کرائسس میں کیا فرق ہے، اور رئیل لائف میں ڈپلومیسی جنگ یا سینکشنز تھریٹس کے باوجود ”قومی غیرت“ کس طرح ورک کرتی ہے کہ سیکورٹی کونسل تک آپ کے فیصلوں کو ختم نہیں کر سکتی۔
لیکن دوسری طرف ہمارا ملک ہے، جہاں پانامہ لیکس کے پلندے آپ کو پلیٹ میں رکھے ملتے ہیں لیکن نہ میڈیا ٹھیک پلے کرسکتا ہے نہ سوئس اکاو¿نٹس والے فارنزک کی آڈٹ کی ڈیمانڈ کرنے والے، نہ مشرف کے اربوں روپوں کو درگزر کرنے والے اور نہ ہی قوم سے خطاب کی خواہش رکھنے والا خیالی وزیر اعظم۔تو اس کے بعد ابن بطوطہ جیسے سیلانی سانتا اینا چرچ میں کوہستان کی لینڈ سلائیڈ میں تباہ ہونے والوں کےلئے سینے پر کراس بنا کے ”اللہ سائیں توں مسکیناں دی مدد کر“ کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں؟٭٭