اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

884,110FansLike
9,999FollowersFollow
568,900FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

نادرا کے 16 ڈی جیز فارغ، چھ ماہ میں تمام شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کافیصلہ : وزیر داخلہ

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ 6 مہینوں میں تمام افراد کے شناختی کارڈز کی دوبارہ تصدیق کی جائے گی۔ جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ کے حامل افراد کو 7 سال قید جبکہ ایسے شناختی کارڈز اور پاسپورٹس کے حصول کیلئے مدد کرنے والے سرکاری ملازمین کو 14 سال قید کی سزا دی جائے گی۔ نادرا کے 26 ڈائریکٹر جنرلز میں سے 16 ہٹا دیئے اور اب صرف 10 ڈی جیز کام کریں گے۔ ولی محمد کا شناختی کارڈ تو صرف ایک کیس ہے، گزشتہ 12 سالوں میں ایسے کئی کیسز ہیں جن کے بارے میں اگر بتا دیا جائے تو سب حیران اور پریشان ہو جائیں گے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کسی بھی باعزت، باوقار، جمہوری اور باغیرت ملک کیلئے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ اس کی شہریت بیچی جائے۔ جو اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں ان کیلئے تو یہ صرف جعلی دستاویزات ہیں، لیکن دراصل یہ پاکستان کی سیکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ ہم نے تمام افراد کے شناختی کارڈز کے بجائے اڑھائی کروڑ خاندانوں کو ٹارگٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کا آگے فیملی ٹری چل رہا ہے اور اس مقصد کیلئے ڈائریکٹوریٹ بنا دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس سلسلے میں 3 ماہ تک اشتہار چلانے کافیصلہ بھی کیا ہے جس میں انتباہ کیا جائے گا کہ اگر کسی شخص نے جعلی شناختی کارڈ بنایا ہے تو وہ دو مہینوں میں از خود اپنا شناختی کارڈ جمع کرا دے۔ اس کیساتھ ساتھ نادرا کے اندر یا پاسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے اندر جن لوگوں نے بھی جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بننے میں مدد کی ہے وہ اس کی نشاندہی کریں کہ کہاں کہاں جعلی شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں۔ اگر کسی نے ازخود جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ جمع کرا دیا تو اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہو گی، اگر نادرا یا پاسپورٹ آفیسر کے کسی شخص نے نشاندہی کر دی کہ اس کے یا کسی اور ٹیم کے ذریعے یہ مشکوک شناختی کارڈز یا پاسپورٹس بنوائے گئے تو پھر اس افسر یا اہلکار کے خلاف بھی کارروائی نہیں ہو گی۔انہوں نے کہا کہ 2 مہینے کے بعد جہاں بھی جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹس ملیں گے جو امید ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ملیں گے، تو پھر صرف معطلی نہیں ہوگی بلکہ ایسے افراد کے خلاف کیسز بنائے جائیں گے اور 7 سال تک قید کی سزا دی جائے گی اور جو سرکاری ملازمین جعلی شناختی کارڈز یا پاسپورٹس بنوانے میں ملوث ہوں گے ان کیلئے 14 سال قید کی سزا ہے۔ جنہوں نے ملک کی عزت اور شہریت بیچی ہے ، ان کو یقینا جیل کی سلاخوں میں بھجوانا چاہئے اور ان کے حق میں کسی کی بھی سفارش نہیں چلے گی۔ ہم نے فوری طور پر ہنگامی بنیاد پر اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر ہمیں عوام اور میڈیا کی سپورٹ چاہئے۔ چوہدری نثار نے کہا کہ جب تین ماہ میں موبائل سموں کی تصدیق کی بات کی تو تمام کمپنیوں نے وزیراعظم سے شکایت کی لیکن میں نے کہا کہ تین ماہ میں ہی کی جائے گی اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر کسی بھی دہشت گردی کے واقعے میں جس کمپنی کی سم استعمال ہوگی مقدمہ بھی اسی کے خلاف درج کیا جائے گا۔ اس کے بعد آپ سب نے دیکھا کہ 3 ماہ میں ساڑھے 9 کروڑ سموں کی تصدیق ہوئیں جو گزشتہ 10 سال سے نہیں ہو رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹوریٹ اور پاسپورٹس کو نادرا کی طرح آئندہ چھ ماہ کیلئے اسینشنل سروسز دینے کافیصلہ بھی کیا ہے اور اس کے علاوہ ایک انعامی سکیم کا اعلان بھی کر رہے ہیں جو بنیادی طور پر نادرا کی طرف سے ہے۔ اس سکیم کے تحت اگر پاکستان کا کوئی شہری اپنے دائیں بائیں رہنے والے ایسے غیر ملکیوں کی نشاندہی کرے جو پاکستانی شناختی کارڈز رکھتے ہیں تو ان کی اطلاع پر تحقیقات کی جائیں گی اور اگر واقعی ان کی اطلاع درست ثابت ہوئی تو اطلاع دینے والے کو انعام دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک اور ہیلپ لائن بھی قائم کر رہے ہیں جو ایسے افراد کی شکایات کا ازالہ کرے گی جو پاکستانی ہوں گے اور ان کے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ بلاوجہ اور جان بوجھ کر بلاک کر دیئے جائیں گے۔ اس موقع پر چوہدری نثار علی خان نے گزشتہ کئی سالوں کے دوران جعلی شناختی کارڈز بنوانے والے سرکاری اہلکاروں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں اور جعلی پاسپورٹس کو بلیک لسٹ کرنے کے حوالے سے اعداد و شمار کا تذکرہ بھی کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ جعلی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس مشرف دور میں بنے۔ 2006ءمیں 25، 2007ءمیں 37، 2008ءمیں 12،2009 میں 25 اور اگلے تین سال میں 361 پاسپورٹس بلیک لسٹ ہوئے جبکہ ہمارے پچھلے دو سال میں 29 ہزار پاسپورٹ بلیک لسٹ ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ ولی محمد کا شناختی کارڈ 2001ءمیں بنا لیکن 2001 ءسے 2003ءتک کسی بھی نادرا یا پاسپورٹ ملازم کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ 2004ءمیں8، 2005ءمیں 4، 2006 میں صفر اور 2007 میں صرف 3 ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی جبکہ ہمارے دور میں یعنی تین سال میں 826 ملازمین کے خلاف کارروائی کی گئی۔ چوہدری نثار نے کہا کہ اس وقت ایک ایمرجنسی صورتحال کا سامنا ہے۔ نادرا اور پاسپورٹ حکام سے کہا ہے کہ یہ قابل اطمینان نہیں کہ پہلے کارروائی ہوتی نہیں تھی اور اب لاکھوں کے حساب سے کارڈز بلاک ہوتے ہیں اور ہزاروں کے حساب سے پاسپورٹس بلاک ہوتے ہیںجو بات اطمینان بخش نہیں وہ یہ ہے کہ ابھی تک ہم شفافیت سامنے نہیں لا سکے، میرے پاس کوئی بہانہ نہیں کہ ولی محمد کو شناختی کارڈ 2001ءمیں دیا گیا اور کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ 2002 میں ملا، پہلا پاسپورٹ 2005ءمیں ملا اور ری نیو 2011یا 12 میں ہوا اور اگست 2016 اکتوبر میں ہونی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا سے گزارش ہے کہ یہ پاکستان کی عزت اور توقیر کا مسئلہ ہے، میں چھ مہینوں میں سب صفائی کرنا چاہتا ہوں، جس میں عدالتوں، سول سوسائٹیز، میڈیا اور عوام کی مدد چاہتا ہوں ۔ اس موقع پر انہوں نے اس تمام تر معاملے کو دیکھنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا اعلان بھی کیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماءشامل ہوں گے۔ اس کمیٹی کو اعلیٰ انٹیلی جنس اداروں کے ڈی جیز سے بات کر کے بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ بھی اپنی تجاویز دے سکیں۔