اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

886,817FansLike
10,001FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

بے بنیاد الزامات کے بعد سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں : زاہد حامد کے استعفے کا متن

سلام آباد(نیوزالرٹ) فیض آباد دھرنے کے بعد اپنی وزارت سے مستعفی ہونے والے سابق وفاقی وزیر زاہد حامد کے استعفے کا متن سامنے آگیا ہے ، استعفے کے متن میں ان کا کہنا تھا کہ میری اورمیرے خاندان کی خواہش ہے کہ ہم ختم نبوت ﷺ کی خاطر اپنی جان نچھاور کریں ، مذہبی جماعت کی جانب سے لگائے گئے بے بنیاد الزامات کے بعد میں سخت ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں۔
تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین کے نام اپنے استعفے میں سابق وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ انتخابات ایکٹ 2017کی مںظوری کے بعد مجھ پر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے جو بطور مسلمان حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت پر ،ان کے خاتم النبین ہونے پر مکمل پر بلا مشروط قطعیت سے متعلق میرے ایمان پر اور ختم نبوتﷺ سے متعلق اقرار نامے ،حلف نامے کی تبدیلی میں ،جو کہ اپنے اصل الفاظ میں بحال ہو چکاہے ،میرے ظاہری کردار پر شبہ کیا جارہاہے ،جس کی وجہ سے مجھے گزشتہ چند ہفتوں سے شدید پریشانی میں مبتلا کیا گیا ۔یہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات ہیں جو مکمل طور پر حقائق کے بر عکس ہیں جنہوں نے مجھے ناقابل تصور تکلیف اور ذہنی کرب میں مبتلا کر رکھاہے ۔میں نے بار بار پارلیمنٹ کے سامنے ،میڈیا کانفرنسوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان الزامات کی تردید کی ہے ۔
ہمارے خاندان کا پسرور ضلع سیالکوٹ سے قدیمی تعلق ہے ،ہم نے نسلوں سے اس علاقے کی خدمت کی ہے ،ہم سنی مسلمان ہیں ،ہم حضرت میاں میر صاحب کے مریدبھی ہیں ،میرے دادا ،سب سے بڑے چچا ، خالہ،والد او روالدہ ،بہن اور زوجہ میاں میر صاحب کے مزار کے احاطہ میں مدفن ہیں ۔میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے اپنی زوجہ مرحومہ کے پہلو میں مدفن کی جگہ دی گئی ہے ،مجھے دومرتبہ حج اور متعدد مرتبہ عمرہ ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
میں ختم نبوت ﷺسے متعلق قانون میں صراحت کردہ حلف نامے کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے مع حضرت محمد ﷺ کیلئے اپنی لا محدود محبت کی تکرار کی اپنی ویڈیو ریکارڈنگ جاری کی ہے ،میری اور میرے خاندان کی یہ خواہش ہے کہ ہم ختم نبوت ﷺ کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کر دیں ۔
20نومبر 2017کو مجھے تحریک لبیک کے وفد کے چار ارکان سے ملنے کیلئے کہا گیا ،مجھے سننے اور ویڈیو دیکھنے کے بعد انہوں نے سینیٹر راجہ ظفر الحق،وفاقی وزرا ءاحسن اقبال ،خواجہ سعد رفیق ،خصوصی مشیر برائے وزیراعظم ،بیرسٹر ظفراللہ خان ،وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ اور دیگر کے سامنے اعلانیہ طور پر یہ کہا کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ میں احمدی نہیں تھا اور صرف ختم نبوت ﷺ سے متعلق اقرار نامے ،حلف نامے کے الفاظ میں تبدیلی سے متعلق میرے کردار پر شبہ کیا جارہاہے ۔
میں نے انتخابات بل 2017کے پس منظر ،تیاری کے طریقہ کار اور اس کے وضع کیے جانے کی بابت مختلف فور م کے روبرو کئی مرتبہ جامع بیانات اور مفصل معلومات مہیا کی ہیں ،ریکارڈ کی غر ض سے ،میں حسب ذیل متعلقہ حقائق کا تفصیلی خلاصہ بیان کروں گا ۔
ا) اصل بل انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی (PCER ) اور اس کی تین ذیلی کمیٹیاں جو تمام سیاسی جماعتوں کے 34نمائندوں پر مشتمل تھیں ،دونوں ایوانوں کی نمائندگی کر رہی تھیں کی پیداوارا تھانہ کہ وزارت قانون کی ،جنہوں نے اڑھائی سالوں میں 125اجلاس منعقد کیے ،دفتر معاونت قومی اسمبلی کے سکریٹریٹ کی جانب سے فراہم کی گئی ۔2) مسودہ بل ،مع ختم نبوت ﷺ کے اقرار نامے ،حلف نامے (بذات خود اس کے حلف نامے میں بغیر کسی تبدیلی کے )” بذریعہ ہذا اقرار کرتاہوں “کو الفاظ ”حلفا اقرار کرتا ہوں ‘ ‘ کے الفاظ سے تبدیل کیا گیا ،(PCER)کی حتمی رپورٹ کا حصہ تھا جسے (PCER ) کے چیئر مین اسحاق ڈار دونوں ایوانوں میں پیش کیا تھا ۔اس کی نقول تمام سینیٹرز صاحبان اور ایم این اے صاحبان اور ایم این اے صاحبان کو جاری کی گئیں ۔
3)جب (PCER) کی جانب سے حتمی شکل دیا گیا بل قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیا گیا تھا ،تو ایوان نے مختلف دفعات میں متعدد ترامیم منظور کیں ،جس میں اقرار نامے کے آخر میں ’اقرار صالح ‘کو متفقہ طور پر اختیار کرنا شامل تھا ۔
4)سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کی جانب سے متعدد ترمیمات کی گئیں ،لیکن ان مین سے کوئی بھی زیر بحث تبدیلی سے متعلق نہیں تھیں ۔سینیٹ کے فلو ر پر جونہی سینیٹر حمد اللہ کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم سے یہ عیاں ہوا کہ اس تبدیلی سے حساس معاملے میں تنازع پیدا ہو گیاہے ۔قائد ایوان سینیٹر راجہ ظفر الحق اور میں نے اس کی ترمیم کو اصل زبان میں بحال کرنے کی تائید کی ۔
پی ایم ایل (این ) کے سینیٹر نے ترمیم کیلئے ووٹ دیا ،تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور نتیجتا سینیٹر حمد اللہ کی ترمیم کو 34-31سے شکست ہوئی ۔
5)جب بل کو دوبارہ قومی اسمبلی میں لایا گیا تو کوئی بھی ترمیم پیش نہیں کی جاسکی کیونکہ اپوزیشن کی جانب سے فساد پیدا کیا گیا تھا اور بل کو اسی طرح پاس کیا گیا جیسا کہ سینیٹ نے منظوری دی تھی ۔
6) اسکے فی الفور بعد قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کے قائدین کی مشاورت سے وزارت قانون نے میری نگرانی میں ختم نبوت ﷺ کے حلف نامے کے اصل الفاظ کو بحال کرنے کیلئے انتخابات (ترمیمی) بل کو تیا ر کیا ۔یہ تمام ممکنہ خدشات اور بد گمانی کو دور کرنے کیلئے کیا گیا ۔باوجود اس نقطہ نظر کے الفاظ ”میں بذریعہ ہذا یہ اقرار کرتا ہوں “ جس میں کے آخر میں اقرار نامے میں اقرار صالح آر رہا ہو اس کا ٹھیک طور سے وہی قانونی اثر تھا جیسا کہ الفاظ ’ میں حلفا اقرار کرتا ہوں ‘ کا ہے کیونکہ دستور کے آرٹیکل 260کے مطابق ”حلف میں “ ”اقرار صالح “ شامل ہے ۔ترمیمی بل کو دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا ۔
7) عام انتخابات کے انعقاد کا فرمان 2002 کے آرٹیکل 7 ج کو 17جون ،2002 کو متعارف کرایا گیا تھا اور یہ فراہم کرتاہے کہ ووٹر کی رجسٹریشن پر اعتراض کہ وہ مسلمان نہیں ہے ۔فرمان ترمیم دوم کے اجراءسے دس دن کے اندر داخل کرنا پڑتا ہے ۔(جس کی میعاد 7ب کے جو قادیانیوں کی حیثیت سے متعلق تھا )اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا ،میں نے یہ تجویز دی تھی کہ دس دن کی شرط کو ختم کرنے کے بعد اسے از خود انتخابی ایکٹ میں شامل کیا جائے ،جو اس کو عملی صورت میں ظاہر کرے گا اور اس کو موثر بنائے گا ۔بعدازیں میں سپیکر قومی اسمبلی کی مدد اور اثر و رسوخ کے نتیجے کے ذریعے تمام پارٹیوں کے مابین اتفاقرائے کو فروغ دینے دینے کا انتظام کرنے کا وسیلہ بنا اور اس کے نتیجے میں انتخابات (ترمیمی ) بل 2017جو اصل انتخابات بل (دس دنوں کی شرط کے بغیر میں دونوں دفعات کو شامل کرتے ہوئے پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا ۔)واضح طور پر یہ علامات اصل قانونی احکامات میں ایک بہت بڑی بہتری ہیں ۔
مذکورہ بالا حقائق کے پیش نظر ، جو کچھ بھی مجھ سے استعفیٰ طلب کرنے کا کوئی جواز تھا/ہے ۔ میں نے اقرار نامے /حلف نامے کے اصل الفاظ کی بحالی اور فرمان2002ءکے آرٹیکل 7ب اور7ج کے شامل کرنے اور اس کے الفاظ کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان حقائق کے باوجود، جبکہ میرا استعفیٰ تحریک کے قائدین/دھرنا قائدین کا بنیادی مطالبہ ہے ، میں نے اس وقت پر اور دوبارہ محترم وزیر اعظم اور معزز پارٹی کی قیادت سے یہ درخواست کی تھی کہ ملک میں امن و ہم آہنگی کے مفاد میں مجھے دستبردار ہونے کی اجازت دی جائے ، میں ان کا شکر گزار ہوں کہ آخر کار انہوں نے میری درخواست سے اتفاق کیا ، لہذا میں بذریعہ ہذا بطور وفاقی وزیر اپنا استعفیٰ پیش کر رہا ہوں ۔
میرے لئے یہ عزت اور امتیار کی بات ہے کہ میں بطور وفاقی وزیر اپنے ملک کی خدمت کی ، میں نے دونوں وزارئے اعظم کا ممنون ہوں کہ جن کی قیادت میں ، میں ان کے مجھ پر یقین اور اعتماد کے لئے خدمات سرانجام دیں۔