اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

882,597FansLike
10,001FollowersFollow
568,900FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

سپریم کورٹ کا پنجاب اور پختونخوا میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا حکم

سپریم کورٹ نے انتخابات میں تاخیر کے حوالے سے از خود نوٹس کیس میں فیصلہ سنا دیا۔سپریم کورٹ نے 90 دنوں کے اندر پنجاب اور خیبر پختونخوام میں انتخابات کرانے کا حکم سنا دیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے گزشتہ روز دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔عدالت نے دنوں اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ بینچ کے اکثریتی ججز نےدرخواست گزاروں کو ریلیف دیا ہے۔

سپریم کورٹ 13 صفحات پر مشتمل تحریری فیصل جاری کیا ہے،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے 2صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے اختلافی نوٹ کے بعد فیصلہ3،2کے تناسب سے سامنے آیا۔

سپریم کورٹ:حکومتی اتحاد نے فل کورٹ بنانے کی درخواست واپس لے لی

چیف جسٹس نےآج سماعت کے دوران ریمارکس میں کہا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد تاریخ کا معاملہ عدالت کے سامنے آیا، آئین عام انتخابات سے متعلق وقت مقرر کرتا ہے۔

فیصلے کے مطابق پنجاب میں گورنر کی منظوری نہ ہونے پر اسمبلی 48 گھنٹوں میں تحلیل ہوئیجبکہ خیبرپختونخوا اسمبلیمیں گورنر سے اسمبلیاں تحیلل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، دونوں صوبوں میں 90 روز میں انتخابات ہونے ہیں،پارلیمانی جمہوریت آئین کا فیچر ہے، پارلیمانی نظام جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔

اگر گورنر اسمبلی تحلیل کرے تو تاریخ کا اعلان بھی خود کر سکتا ہے،ایسی صورتحال خیبرپختونخوا اسمبلی میں ہوئی اور گورنر نے اسمبلی ختم کردی،سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی 14، کے پی 18 جنوری کو تحلیل ہوئی،پنجاب اسمبلی گورنر کے دستخط نا ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی۔

سپریم کورٹ کے 4 جج صاحبان نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟

سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ صدر نے 9اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا،اس صورتحال میں الیکشن کمیشن نے اپنا کردار ادا نہیں کیا،اب الیکشن کمیشن صدر کے ساتھ مشاورت کرے اور معاملے کو حل کرے،وفاق کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھا اور کہا کہ پہلے سے 2درخواستیں موجودتھیں،پہلے سے موجود درخواستوں کو جلدی سننے کی کوشش کی گئی۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ منظور الہٰی اور بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے اس بارے میں واضح ہیں،جب ایک درخواست موجود ہو تو پھر اس کیس میں جلدی نہ ہو،منظورالہٰی اور بے نظیر کیس کے مطابق از خود نوٹس لینا نہیں بنتا، ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے۔

جسٹس مظاہر علی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ 90روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں، سپریم کورٹ ایک ایپکس کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،سپریم کورٹ کی ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے،23فروری کو جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہرمن اللہ نے جو نوٹ دیا اس پر ہم مطمئن ہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں سولہ فروری کو از خود نوٹس کے لئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا اس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کیلئے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔