اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

880,937FansLike
10,001FollowersFollow
568,800FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

آبی آلودگی و قلت، چیف جسٹس کا حکم اور میرا تجسس

سیاسی آلودگی سے ماحول کو متعفن بنانے والے ہمارے کرم فرما حکومتی اور اپوزیشن لیڈران کو قدرتی ماحول میں پیدا ہونے والی آلودگی کے موجودہ مضر اور مستقبل قریب میں پیدا ہونے والے ممکنہ مضر ترین اثرات کا احساس و ادراک ہے یا نہیں؟ میں تو نقارخانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ان سطور میں اور جہاں بھی موقع ملے، ٹی وی ٹاک شوز میں ایک عرصے سے چیخ و پکار کر رہا ہوں مگر اربابِ بست و کشاد کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے آئی مصیبت ازخود ٹل جانے کی خوش فہمی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سید منصور علی شاہ کی جانب سے ماحولیات کی آلودگی کے خلاف کیس میں چشم کشا ریمارکس پڑھنے کو ملے تو سیاسی آلودگی پھیلانے والے حکومتی اور اپوزیشن قائدین کی بے بصیرتی پر عملاً رونا آنے لگا کیونکہ ان اکابرین کو ایک دوسرے پر دھول دھپّے کے سوا کوئی کام کرنے کا نظر ہی نہیں آتا۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تو انہیں جھنجوڑ رہے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کے سبب ہر فرد کی زندگی دائو پر لگ چکی ہے جس پر عدالت خاموش نہیں رہ سکتی یہ کیس ایک وکیل شیراز ذکاء نے ماحولیاتی اور آبی آلودگی کے خلاف دائر کر رکھا ہے جن کا کہنا ہے کہ محکمہ ماحولیات محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے اور تحفظ ماحولیات کے قوانین پر عملدرآمد کا کسی کو خیال ہی نہیں آ رہا۔ فاضل چیف جسٹس نے تو اس کیس میں ماحولیات کی آلودگی کا باعث بننے والے اداروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دے دیا ہے مگر میرا ذاتی تجربہ آج بھی یہی گواہی دے رہا ہے کہ ’’سٹیٹس کو‘‘ میں آسودگی محسوس کرنے والے ہمارے حکومتی، انتظامی اداروں کے کانوں پر چیف جسٹس کے سخت احکامات کے باوجود آج بھی جوں تک نہیں رینگے گی اور کھلبلی اس وقت پیدا ہو گی جب موت گلے تک آ پہنچے گی۔
سب سے پہلے تو میں آبی اور موسمیاتی ماہرین کی یہ رپورٹیں پھر آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل قریب میں بہت گھمبیر مسئلہ پانی کی قلت کا درپیش آنے والا ہے جس کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔ متذکرہ رپورٹوں کی روشنی میں زیر زمین پانی کی سطح حیران کن تیز رفتاری کے ساتھ نیچے کو جا رہی ہے۔ چنانچہ زیر زمین جو پانی کبھی 70,60فٹ کی گہرائی پر دستیاب ہو جاتا تھا اور انتہائی شفاف ہوتا تھا، وہی پانی آج چار پانچ سو فٹ نیچے بھی بمشکل دستیاب ہو رہا ہے جس میں مختلف زہریلی دھاتوں کی آمیزش ہوتی ہے اور فلٹریشن کے بغیر اس پانی کا استعمال سیدھا سیدھا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ماہرین کی ان رپورٹوں میں پانی کی قلت کی 2020ء تک کی انتہائی گھمبیر صورتحال کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے بقول آئندہ چار سال بعد زیر زمین ہزار فٹ گہرائی تک بھی پانی دستیاب نہیں ہو گا نتیجتاً اس دھرتی پر خشک سالی اور قحط ڈیرے ڈال لے گا اور پھر یہاں موت کا راج ہو گا۔ کیا کراچی کے مختلف علاقوں میں پانی کی قلت اور آلودگی کے خلاف برتن اٹھا کر احتجاج کرنے والے خواتین و حضرات کی چیخ و پکار بھی آپ کو موت کے آنے والے راج کی عکاسی کرتی نظر نہیں آ رہی۔ دشمن کی سازشوں میں گھرے وطن عزیز کی سلامتی کے لئے فکرمندی کے احساس میں ڈوبے محترم مجید نظامی کو شائد قدرت نے پانی کی قلت سے پیدا ہونے والے ان مسائل کا ادراک بھی دے دیا تھا اس لئے وہ اپنی زندگی کے آخری سانس تک بے فکر حکمران طبقات کو متنبہ کرتے رہے کہ آئندہ عالمی جنگ پانی پر ہو گی اور اس گھمبیر ترین مسئلہ پر بھی ہمارے حکمران طبقات اور مجاز اتھارٹیز کی بے فکری کی روش اب اس کی نوبت لایا ہی چاہتی ہے۔ ہمارا کلچر تو تباہی کی نوبت آنے پر خود کو جھنجوڑ کر جگانے والا بن گیا ہے اور ماحولیات کی آلودگی کا باعث بننے والے مافیاز میں اتنا گٹھ جوڑ ہے کہ وہ آلودگی کے خاتمہ کے لئے کسی عدالتی، انتظامی حکم پر عملدرآمد کی نوبت ہی نہیں آنے دیتے۔ اس کے لئے میرے ذاتی تلخ تجربات بھی گواہ ہیں کہ میں نے لاہور میں سنگین آلودگی کا باعث بننے والے سلاٹر ہائوس اور اس سے ملحقہ کیٹل مارکیٹ کی شہر سے باہر منتقلی کے لئے سماجی اور عدالتی محاذ پر جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تو میڈیا کا پلیٹ فارم دستیاب ہونے کے باوجود مجھے مسلسل 12 سال تک یہ جنگ لڑنا پڑی۔ تب کہیں جا کے عدالتِ عالیہ لاہور کے قطعی حکم پر کیٹل مارکیٹ اور سلاٹر ہائوس کی لاہور سے باہر شاہ پور کانجراں میں منتقلی کی نوبت آئی۔ اس کے لئے مجھے اور سبزہ زار ویلفیئر سوسائٹی کے دوسرے عہدیداروں کو جن کٹھنائیوں اور حوصلہ شکن صورتحال سے گزرنا پڑا وہ مصطفی زیدی کے اس شعر میں ہی بیان کی جا سکتی ہے کہ…؎
کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی میرے واقعات میں
میرا تو جرم تذکرۂ عام ہے مگر
کچھ دھجیاںہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں
آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نوائے وقت کے ہائیکورٹ رپورٹر ہونے کے ناطے عدالتِ عالیہ تک میری رسائی اور شنوائی بھی تھی۔ حکومتی سیاسی حلقوں میں بھی کچھ نہ کچھ جان پہچان تھی، وکلا برادری کی حوصلہ افزائی بھی میرے شامل حال تھی اور بیرسٹر کامران شیخ سے محمد اظہر صدیق تک وکیل بھائیوں نے اس کیس میں اپنی بلامعاوضہ خدمات میرے حوالے کر رکھی تھیں۔ عدالتِ عالیہ کے ایک سرونگ فاضل جج بھی قانونی موشگافیاں طے کرانے میں میری معاونت کیا کرتے تھے۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ راجہ عبدالرحمان بھی عدالتی احکام کی تعمیل کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے، اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر لاہور میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور دبنگ ڈی سی او کیپٹن خالد سلطان بھی لاہور کی اس آلودگی کے خلاف میری مہم کا ساتھ دے رہے تھے اور پھر لاہور بچائو تحریک کی محترمہ عمرانہ ٹوانہ اور رافع عالم نے بھی میری آواز کو تقویت پہنچانے کا بیڑہ اٹھا لیا تھا اس کے باوجود مافیاز کی جانب سے کم و بیش روزانہ مجھے پیغام ملتا کہ آپ کا ’’بندوبست‘‘ کر لیا گیا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں سبزہ زار سکیم میں آ کر ایک جلسہ عام کیا اور مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ کے مطالبے پر چھ ماہ کے اندر اندر کیٹل مارکیٹ اور سلاٹر ہائوس کی شہر سے باہر منتقلی ہو جائے گی۔ اس کے باوجود انتظامی مشینری حرکت میں نہ آئی اور بالاخر میری کٹھن جدوجہد 12 سال بعد ہائیکورٹ میں میری 150پیشیوں کے ریکارڈ کے ساتھ عدالتِ عالیہ کے احکام کے تحت بارآور ہوئی تو اندازہ لگا لیجئے کہ ’’سٹیٹس کو‘‘ میں آسودگی حاصل کرنے والے ہمارے سیاسی، حکومتی اکابرین و حکام ماحولیاتی اور آبی آلودگی پر قابو پانے کیلئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے صادر کئے گئے احکام کو کتنا رگیدیں گے۔ اس ’’سٹیٹس کو‘‘ کا میرے دوست وائس چیئرمین پارکس اینڈ ہارٹی کلچر افتخار احمد کو بھی آج بخوبی ادراک ہو چکا ہے جو بغیر کسی حکومتی، ادارہ جاتی سپورٹ کے شہر کو آلودگی سے پاک کرنے اور درختوں، مختلف رنگوں کے پھولوں سے مالا مال کرنے کیلئے ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں مگر انہیں اپنے منصب کے سامنے ’’سٹیٹس کو‘‘ والوں کی رکاوٹیں ہی رکاوٹیں نظر آتی ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے جلو پارک میں بوٹینیکل گارڈن کی شکل میں تتلیوں کا اچھوتا اور برصغیر کا دوسر انکلیو بنوا کر ’’میرے شہر میں تتلیاں اور جگنو لوٹا دو‘‘ والے اپنے خواب کے ایک حصے کو شرمندہ تعبیر کرا لیا ہے۔ تو جناب! آج آبی اور ماحولیاتی آلودگی اور آنے والی پانی کی قلت کے مسائل سے نجات پانے کیلئے ہر شہری کو انفرادی اور اجتماعی طور پر آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو آپ پانی کی اس نعمت کو جو آپ سے اب روٹھنے والی ہے، بے دریغ ضائع کرنے کی روش از خود ختم کریں اور پھر ’’سٹیٹس کو‘‘ والوں کو جھنجوڑنے کیلئے میدان عمل میں اجتماعی طور پر نکل آئیں۔ آپ جب تک چیخیں گے نہیں، آپ کے جان لیوا مسائل کی جانب کوئی کان نہیں دھرے گا۔