اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

878,576FansLike
10,000FollowersFollow
568,600FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

ترکی کی عوام ، جمہوریت اور اسلام ۔۔۔ (عرفان نواز رانجھا)

اصل جنگ اسلام اور دشمنانِ اسلام کے در میان ہے اصل لڑائی ہی حق و باطل کی ہے۔ سیکولر اور لبرل طاقتیںاسلام پسند ترکی کے خلاف ہیں۔ ترکی میں فوج کے ایک ٹولے کا جمہوری حکومت پر شب خون کے علاوہ اسلام پسند حکومت کے خلاف بھی تھا۔میرے نزدیک تو ترکی کی عوام نے جمہوریت کے ساتھ ساتھ اسلام کا ایک مضبوط قلعہ بھی بچایا ہے۔ آپ دیکھیں کہ اسلام کے ایسے کئی قلعوں میں سیکولر طاقتوں نے مفاداتی جنگ نافذ کی ہوئی ہے، شام ،افغانستان ہویاعراق اگر یہاں خلافت ،جمہوریت یا بادشاہت جو بھی قائم تھی کیا وہاں عوام الناس امن و امان اور سکون کی زندگی بسر نہیں کر رہے تھے ؟ کیا وہاں جنگ و جدل کی ضرورت تھی؟لیکن ان طاقتوں کو عوام الناس سے غرض نہیں ہوتی،انہیں جمہوریت،بادشاہت یا خلافت سے خطرہ نہیں ہوتا یہ ایسے ممالک کے نظریات اور اقدامات کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اور یہی کھیل یہ طاقتیں شاید ترکی میں کھیلنا چاہتی ہیں مگر ایک دفعہ تو ترکی کی عوام نے اس بغاوت کو کچل دیا ہے اور کسی ملک کی عوام کا زندہ دل ہونا بہت ضروری ہے کہ عوام اگر جاگ رہی ہو گی تو کوئی طاقت اس طرح کی قبیح حرکت نہیں کر سکتی لیکن اس کے بر عکس اگرتاریخ کے اوراق کو پلٹیں تو یہ حقیقت بھی واضح نظر آتی ہے کہ اسلام کو دشمنوں کے علاوہ اپنوں نے زیادہ نقصان سے دوچار کیا ہے جب بھی دشمنانِ اسلام نے اسلام اور مسلمانوں کونقصان پہچانے کی کوشش ہے تو ہر دفعہ کئی ایمان فروشوں نے ایسی سازشوں اوربغاوتوں میں دشمنوں کا ساتھ دیا اور تاریخ گواہ ہے کہ کئی میر صادق اور میر جعفر وقت کی گرد میں دفن ہو گئے لیکن محمد بن قاسم اور ٹیپو سلطان جیسے عظیم لوگوں کو تاریخ آج بھی سنہری حروف میں یاد کرتی ہے ۔
ترکی میں سیکولر سوچ کے حامی باغی فوجیوں کے خلاف عوام الناس کا سینہ سپر ہونا اصل میں طیب اردگان کے نظریات کی فتح ہے اور طیب اردگان کے وہ نظریات کیا تھے، پہلا نظریہ عوام الناس کو ڈلیور کرنا جو انہوں نے بخوبی نبھایا اور دوسرا ترکی کو سیکو لرازم اور لبرل ازم کی زنجیروں سے آزاد کر کے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی تگ و دو کی جس کا سفر بھی کامیابی سے جاری و ساری ہے ،اب سیکولر طاقتیں کبھی بھی پہلے نظریے کے خلاف نہیں ہو سکتی کیونکہ دنیا میں کئی خوشحال اور ترقی یافتہ اسلامی ممالک ہیں لیکن وہاں اسلام کم اور سیکولر ازم زیادہ ہے، دوسرا نظریہ اسلامسٹ ہونا ہے یہ نظریہ سیکولر نظریات کے بالکل برعکس ہے اور جس تیزی سے ترکی نے سیکولرازم سے اسلام کی طرف سفر کیا تو یہ نظریہ اور سفر ان طاقتوں کو کسی طور پسند نہیں۔ اسلام مخالف یہ طاقتیں کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ ترکی دوبارہ واپس خلافت ِعثمانیہ کی طرز پر لوٹے جہاں لوگ اسلامی اصولوں پرزندگی بسر کریں۔
طیب اردگان نے جس طرح عوام ،جمہوریت اور اسلام کو ایک لڑی میں پرو کر ترکی کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا وہ قابلِ رشک ہے کہ لوگوں کے لیے جمہوریت بھی ثمربار ہوئی اور دین اسلام بھی واپس ملاہے جس کی وجہ سے عوام الناس نے ترکی،اسلام، جمہوریت اور خود مختاری کی خاطر اپنی جانوں کی قربانیاں دیں۔ طیب اردگان نے اقتدار سنبھالتے ہی غربت کو ختم کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دیں بے روزگاروں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کیے،پڑھے لکھوں کو نوکریاں دیں،آج سے چودہ سال پہلے ترکی میں غربت کی شرع تقریبا 90 فیصد تھی اور اب کم ہو کر تقریبا10فیصد رہ گئی ہے۔طیب اردگان نے دوسرا کام یہ کیا کہ ترکی میں تعلیم کو عام کیا اور نہ صرف دنیاوی تعلیم کے لیے مواقع پیدا کیے بلکہ دینی تعلیم جس پر سیکولر طاقتوں اور حکمرانوں نے کئی طرح کی پابندیاں اور قدغن لگائے ہوئے تھے اس کو بحال کیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ طیب اردگان نے عوام الناس کے گھروں کی دہلیز پر اسلام اور تعلیم پہنچائی تو بالکل مبالغہ آرائی نہیں اور اس کی مثال یہ ہے کہ ترکی میں ہر سال بجٹ میں سب سے زیادہ رقم تعلیم کے لیے مختص کی جاتی ہے ، جدید دور کی تعلیم کے حصول کے لیے کئی سکولز،کالج اور یونیورسٹیاں قائم کیں اور اس وقت پورے ترکی میںیونیورسٹیوں کی تعداد 180کے قریب ہے اور دینی تعلیم اور عبادات کے لیے کئی ہزار نئی مساجد قائم کیں،تعلیمی سلیبس میں دینی تعلیم کو لازمی قرار دیا اور ان اقدامات کی وجہ سے ترکی میں ماشاء اللہ اسلام کا اصل چہرہ نمایاں ہوا ہے ۔ طیب اردگان نے ترکی میں 2002سے 2011تک13500کلومیٹر ایکسپریس ہائی وے تیار کیے ہیں جو ترکی کی ترقی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور سڑکیں ہی کسی ملک کی ترقی کی پہلی تصویر ہوتی ہیں۔مسلم امہ پر طیب اردگان کا ایک احسان یہ بھی ہے کہ اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے لیے ایک طاقتور اسلامی ملک کو دنیا کے نقشے پر ابھارا ہے اور اب بھی جب کوئی سیکولریا لبر ل اسلام مخالف نظریات کی حامل ایٹمی اور عالمی طاقتیں امت مسلمہ کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں یا کہیں بھی بے گناہ مسلمانوں پر مظالم کیے جاتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں ترکی سے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں آواز آتی ہے اور اس کی واضح مثال کہ فلسطین کے لاچار اور محکوم مسلمانوں کے لیے ترکی ہر سال خوراک سے لدا جہاز فریڈم فلوٹیلا روانہ کرتا ہے جب بھی کشمیر،فلسطین،برما یا انڈیامیں مسلمانوں کو مذہب یاسیاست کی بنیاد امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ ترکی کی حکومت ہے جو سب سے پہلے ان متعصب لوگوں کو آنکھیں دکھاتی ہے لیکن اس فوجی بغاوت کے بعد طیب اردگان اور اس کی حکومت کو مزید محتاط ہونا ہو گا دشمنانِ اسلام کی سازشوں کے ساتھ ساتھ ایمان فروشوںکی سازشوں کا بھی قلع قمع کرنا ہو گا اورترکی میں فوجی بغاوت پر بغلیں بجانے والوں سے اتنی ہی گزارش ہے کہ بحیثیت مسلمان آپ تمام مسلمانوں اور اسلامی ممالک سے اتنی ہی محبت کریں جتنی آپ اپنی ذات یا پاکستان سے کرتے ہیں۔
اب رہی بات پاکستان میں موجودہ حالات کی تو آمریت سے جمہوریت بہتر ہے مگر ایک عرصہ سے پاکستانی عوام جمہوریت سے فیض یاب نہیں ہوسکی ہر جمہوری حکومت کو ووٹ نواز کر ایک عرصہ بعد عوام الناس فوج کی جانب نظریں گاڑ لیتی ہے اور آج بھی یہاں جمہوری حکومت ہوتے ہوئے بھی عوام الناس فوجی سپہ سالار کوبا آوازِبلند بلارہے ہیںاب کچھ حضرات یہ بھی فرما رہے ہیں کہ اگر فوج آئی تو عوام الناس ترکی کی عوام کی طرح آمریت کا راستہ روکیں گے تو عرض یہ ہے کہ آپ نے نہ طیب اردگان کی طرز حکومت کو اپنایا ہے اور نہ عوام الناس کو ڈلیور کیا ہے اس لیے اپنا موازنہ ترکی کی حکومت اور عوام کے ساتھ کرنے پر مجھے پنجابی کا ایک اکھان یاد آرہا ہے "کتھے راجا بھوج کتھے گنگو تیلی”(کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی) ۔
اور آخر میں ترک عوام کی نظر علامہ محمد اقبال کا ایک شعر۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پر دم ہے اگر تو تو خطرہ افتاد
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد