اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

880,937FansLike
10,001FollowersFollow
568,800FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

خون نکالے بغیر مائیکرو ویو شعاعوں سے شوگر چیک کیجیے

سائنس دانوں نے خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم کرنے کا ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو جلد میں سوئی چبھونے کی بجائے مائیکرو ویو شعاعوں کی مدد سے کام کرتا ہے۔اب تک ذیابیطس کے مریضوں کو دن میں کئی بار خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم کرنی ہوتی ہے یا پھر بلڈ گلوکوز مانیٹرز استعمال کرنے ہوتے ہیں۔یہ نیا آلہ کارڈف یونیورسٹی کے سکول آف انجینیئرنگ نے تیار کیا ہے۔ اس آلے کو مریض اپنی جلد پر لگا سکتے ہیں۔پروفیسر ایڈریئن پورچ کا کہنا ہے کہ ’خون میں گلوکوز کی مقدار کو جانچنے کے لیے روایتی طریقہ ہے کہ خون نکالا جائے۔ ہمارے آلے میں ایسا نہیں ہے۔پرفیسر پورچ کا کہنا ہے کہ اس آلے کو کسی بھی چپکنے والی شے کے ساتھ بازو پر یا جسم پر لگایا جا سکتا ہے۔ ’یہ آلہ زیادہ عرصے چلے گا اور اس میں کسی قسم کے کیمیا بھی موجود نہیں۔انھوں نے بتایا کہ اس آلے سے حاصل کی جانے والی معلومات کمپیوٹر یا موبائل کی ایپلیکیشن پر محفوظ ہوتی رہیں گی۔پروفیسر پورچ نے کہا کہ اگرچہ کچھ لوگوں کے لیے یہ بات عجیب ہو گی کہ مائیکور ویو شعاعوں کا اخراج کرنے والا آلہ جسم سے لگایا ہوا ہے لیکن یہ بالکل محفوظ ہے۔’یہ آلہ مائیکرو ویو شعاعیں خارج کرتا ہے لیکن بہت ہی کم درجے کی ہوتی ہیں۔ ان شعاعوں کا وہ درجہ نہیں ہوتا جو گھروں میں پکانے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔’کسی موبائل کے بارے میں سوچیں، اس آلے میں اس سے بھی ہزار گنا کم شعاعیں نکلتی ہیں۔‘سوانسی یونیورسٹی کے کالج آف میڈیسن کے پروفیسر سٹیفن لوزیو نے اس آلے کے کلینیکل تجربے کیے ہیں۔ان کا کہنا ہے ’مریض کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کو گلوکوز کی مقدار معلوم کرنے میں سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ انگلی پر سوئی چبھونا نہیں چاہتے اور اسی لیے لوگوں کی اس آلے میں دلچسپی ہے۔‘واضح رہے کہ برطانیہ میں 35 لاکھ افراد ذیبیطس کے مرض میں مبتلا ہیں جبکہ تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ مزید افراد ایسے ہیں جن کو معلوم نہیں کہ ان کو یہ مرض لاحق ہے۔ٹائپ ون کی ذیابیطس کے مریضوں میں سے 10 فیصد کو کم از کم چھ بار روزانہ اپنے خون میں گلوکوز کی مقدار کو جانچنا ہوتا ہے۔کارڈف یونیورسٹی کا یہ پراجیکٹ 2008 میں شروع ہوا تھا اور اس پراجیکٹ کے لیے ویلکم ٹرسٹ نے اب تک دس لاکھ پاؤنڈ کی فنڈنگ کی ہے۔سائنسدانوں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس آلے کو مارکیٹ میں آنے کے لیے ابھی پانچ سال درکار ہیں۔