اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

886,334FansLike
10,001FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

! "سید احمد شاہ پطرس بخاری ” زندہ” ہیں "

” اُردو ادب کے مزاح پارے ”
پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی

mizah parayمیں نہایت بے تکلفی سے آرام کرسی پر دراز لیمونیڈ پیتی رہی۔ وہ پلنگ پر پھیلے ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر کی چسکیاں لیتے رہے اور دوقینچیاں اپنی پوری رفتار سے چلتی رہیں۔ باتوں کے طوفان میں بار بار یہ محسوس کر کے سخت کوفت ہوتی رہی کہ پطرس کا مطالعہ اور مشاہدہ اتنا وسیع ہے کہ برسوں کھُرلی گھونگی پر تل کر عبث نہ ہو سکے گی اس لئے کیوں نہ قنوطیت پر اتر آَؤں اور اپنی خاندانی کج بحثی کام میں لاؤں کہ بڑے بڑے سورماؤں پر آزمایا ہوا نسخہ ہے۔ جہالت اور کم مائیگی کے لئے بہترین ڈھال۔
مگر بہت جلد معلوم ہوگیا کہ غنیم نہایت چوکس ہے۔ مجھ سے کئی سال پرانا اکھاڑے کا کج بحث ہے۔ تیرکی نوک بڑی چابک دستی سے واپس لوٹادیتا ہے۔ اس میدان میں بھی کھلی مار سے بہتر ہے اسے بزرگ مان کر ہتھیار ڈال دوں۔ شاگرد بن کر مسکین صورت سے سوالات کروں اور یہ لکچر جھاڑ کر حلق خشک کرے۔ موقع پاؤں تو ڈنک ماردوں۔ مگر توبہ کیجئے پطرس گھسے میں آنے والے آسامی نہ تھے۔ میرے ہر ذہین اور دقیق سوال میں نہایت بھونڈے پن سے "ہٹایئے بھی یہ بورنگ باتیں” کہہ کر میرا خوب جی جلایا۔
میں نے چڑ کر ان کی ہر بات کو الٹ کر بحث شروع کردی۔ انہوں نے میرے ہر پسندیدہ شاعر کو اور ادیب کو جاہل اور الو کہدیا۔ میں نے بھی نہایت تہذیب اور سلیقہ سے انہیں احمق کہدیا۔ جس پر وہ بے تحاشہ ہنسے۔ میں نے پھر چڑ کر ان کا ساتھ دیا، گو جی یہ چاہ رہا تھا سرہانے رکھا ہوا لیمپ اسٹینڈ ان کے سر پر گرپڑے اور میں ہنستی رہوں۔
"ارے ڈیڑھ بج گیا” گھڑی دیکھ کر وہ جلدی جلدی اپنا گلاس ختم کرنے لگے۔ پھر بھاری بھاری آنکھوں سے میری طرف ایسے دیکھا جیسے میں بالکل کوڑھ مغز ہوں اور پھر بےاختیار ہنسنے لگے۔ بالکل میرے بدذات بھائی چنو کی طرح۔ ایک دفعہ اس کے چڑانے پر میں نے گال پر ایسا پنجہ مارا تھا کہ چربی نکل آئی تھی۔
"جلدی چلنا چاہیے ورنہ کھانا نہیں ملے گا۔” مطلع صاف ہوگیا اورہم نہایت اطمینان سے ڈائننگ ہال میں جا کر مینو پڑھنے لگے۔ "اف یہ فرنچ کھانوں کے نام مجھے بڑے گندے لگتے ہیں۔” میں نے پھر جلانے کی کوشش کی۔ "سب کھانے ساڈین کی طرح بدبوار اور لس سے معلوم ہوتے ہیں۔”اس کے بعد مچھلیوں، گھونگوں اور سپیوں پر بحث ہونی لگی۔ اب انھوں نے ایک دوسرا طریقہ نکالا۔ ہر بات پھر اتفاق کرنے لگے جس پر کوفت دوگنی ہوگئی۔ اور میں اس نتیجہ پر پہنچی کہ پطرس اتر جائیں تو دکہن جانے میں عافیت ہے۔ میں نے چاہا ان کی تحریروں کے بارے میں بات کروں مگر اس عرصے میں ہمارے تعلقات اتنے کشیدہ ہوگئے تھے کہ وہ بھڑک گئے اور یہ بجا بھی تھا۔ اس وقت میں ان کہانیوں کی تعریف کر کے ان کے چہرے پر آنے والی جھپکوں پر مسکرا کر جی ٹھنڈا کرنا چاہ رہی تھی، مگر وہ فوراً ادب کی محفل سے چھلانگ مار پر کھانے پر آگئے۔ کافی بدمزہ کھانا تھا۔ اسٹو کچا تھا جیسے چمڑے چبارہے ہوں۔ اشارے سے بیرے کو بلاکر بڑی لجاجت سے بولے:۔
"دوست یہ بکرا تو سینگ ماررہا ہے کوئی مرا ہوا جانور نہیں پکا تمہارے ہاں۔” بیرا بے چارہ کھسیانا ہوکر ہنس دیا۔ اور جب وہ پلٹیں اٹھا کر چلا گیا تو ایک دم سے بولے:۔
"تم نے لکشمنن کو پطرس کیوں سمجھا؟” اگر گدھے کو پطرس سمجھ لیا ہوتاتو مجھے قطعی شکایت نہ ہوتی۔ "مجھے مسکراتا دیکھ کر بولنے سے پہلے چلدی سے بولے” شاید گدھے کو شکایت ہوتی۔” میں نے اتنی زور سے ٹھٹھ مارا کہ ہال میں مہذب لوگ بدبد کرتے کرتے ایک دم چونک کر دیکھنے لگے۔ پطرس نے تادیبی نظروں سے مجھے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں:۔
"درمیانہ درجہ کی چاردیواری میں پلی ہوئی لڑکی تاج محل ہوٹل کے آداب سے کیسے واقف ہوسکتی ہے۔ اور ان کا خیال ٹھیک تھا۔ اس سے پہلے میں نے صرف ایک دفعہ تاج میں چائے پی تھی۔ اس وقت تک یہ پہلا اتنا شاندار ہوٹل جسے صرف دیکھنے کے لئے گئی تھی۔ تکلفات، سجاوٹ اور صفائی کو ہمارے گھر میں نہایت تحیقر کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ ہمارے گھر میں کھانے کی میز تو تھی اور جب نہایت غیر دلچسپ قسم کے مہمان آتے تھے تب اس پر سلائی کی مشین، اچار کی برنیاں اور بچہ کا گڈولنا اتار کرتخت کے نیچے دوسرے کاٹھ کباڑ کے ساتھ چھپا دیا جاتا تھا۔ خاص مہمانوں کی چادر بچھا کر چینی کی پلیٹیں سجادی جاتی تھی۔ آپا بڑے چاؤ میں آکر نپکن کے پھول بنا کر کلاسوں میں سنوار دیتیں۔ ہم لوگ اسے احمقانہ بناوٹ اور بے کار کی زحمت سمجھ کر نہایت تحقیر سے ہنستے اور انہیں چڑانے کو گلاس میں سے نپکن نکالے بغیر پانی بھر لیتے، آپا مہمانوں کے سامنے ہمارے جنگلی پن کی وجہ سے شرمندہ ہوتیں تو بڑا لطف آتا۔ ہم لوگ تو تانبے یا تام چینی کی رکابیوں میں کھانا لے کر بان کی چارپائی پر سینی رکھ کر بیٹھ جاتے۔ ذرا پلنگ کی ادوائیں ڈھیلی ہوتی تو بڑا مزاآتا۔ کوئی موٹا آدمی بیٹھ جاتا تو سارا شوربہ گود میں رس آتا۔ بان کی ڈھیلی چارپائی پر بیٹھ کر پچھلے شوربہ کا سالن کھانا بھی ایک فن ہے۔ جس میں ہمارا گھرانا ماہر تھا۔
تاج محل ہوٹل میں کانٹے چھری سے کھانا کھاتے وقت میرے کندھے انجانے بوجھ سے تھک گئے۔ اور چغتائیت کو سخت ٹھیس لگی اور مجھے فوراً احساس برتری ہونے لگا۔ کم از کم اس میدان میں تو مجھے فوقیت حاصل تھی۔ پطرس کو روز روز اسی طمطراق سے کھانا پڑتا ہوگا۔ انہوں نے شاید کبھی کھاٹ پر بیٹھ کر آلو گوشت نہیں کھایا ہوگا۔ خاص کر جب کہ اس میں پڑوسی کے باغ سے چرا کر نیبو نچوڑا گیا ہو۔ اس کے بعد بیرے نے پلیٹوں میں نہ جانے کیا لا کر رکھ دیا۔ باتوں میں خیال ہی نہ رہا۔ بڑے دھواں دھار طریقے پر کرشن چندر، بیدی، اور منٹو پر بحث ہونے لگی ۔ان کا خیال تھا تکلف میں ان کی تعریفیں کرتی ہوں تا کہ لوگ مجھے بڑا دریا دل سمجھیں اورمیں کہتی تھی میں خدا کی بھی جھوٹی تعریف نہیں کروں گی۔ ان کی کہانیاں میں نے تنقید نگار یا ایک کہانی نگار کی حیثیث سے نہیں ایک انسان کی حدیثت سے دل بہلانے کو پڑھی ہیں۔ کچھ بری بھی لگی ہیں اور کچھ نشتر بن کر دل میں ترازو ہوگئی ہیں۔
"یہ جذباتیت ہے” انہوں نے رکھائی سے کہا۔
"جذباتیت کیا ہوتی ہے؟” میں نے بھونڈے پن سے کہا۔ وہ سمجھے بن رہی ہوں، حالانکہ یہ سولہ سال پہلے کی بات ہے اور واقعی میری سمجھ میں بہت سے باتیں نہیں آئی تھیں۔ میں نے بہت سی باتوں کے نامعقول جواب دیئے۔ ان کی علمی بزرگی کے قائل ہوتے ہوئے بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ میں نے ان سے یہ بھی نہیں کہا کہ میں کب سے اور کتنی ان کی مختصرتحریروں کی مداح ہوں۔ میں نے بہت کم ان کی تعریف میں کہا۔ جو کہا وہ نہایت بے رخی سے سنی ان سنی کرگئے۔ ان کی اپنی تخلیقات ان کے لئے اتنی اہم نہیں تھی۔ کم سے کم مجھے تو یہی اندازہ ہوا کہ وہ خود پرست نہیں۔
دو گھنٹے لنچ سے کھیلتے گزر گئے۔
"آپ ڈرامہ کیوں لکھتی ہیں؟” انہیں اچانک بم گرانے میں بڑا مزا آتا تھا۔
"یونہی۔” میں نے لنگڑا سا جواب دیا۔
"میری رائے میں تو آپ ڈرامے لکھنا چھوڑ دیجئے۔ بڑے اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں۔ کوئی ایکٹ چھوٹا کوئی لمبا۔ سلیقہ سے کتربیونت کرنے کی بجائے آپ انہیں دانتوں سے کھسوٹتی ہیں۔” ان کی بوجھل عقابی آنکھیں میں ایذارسانی کی لذات کا نشہ ابھرآیا۔
جی چاہا میز کا سارا کوڑا کرکٹ ان کے اوپر لوٹ دوں اور یہ پلٹس کے مزے کی پڈنگ ان کے شاندار سوٹ پر لسڑ جائے۔ مگر میں نے جلدی سے بھڑکتے ہوئے رہوار کی لگامیں کھینچ لیں اور ایک گلاس ٹھنڈا پانی اتار کے نہایت نرمی سے کہا، "اچھا ….اب نہیں لکھوں گی۔” انہیں ناامیدی سی ہوئی کہ میں نے بحث کیوں کاٹ دی۔
"مکالموں میں آپ کے کافی جان ہوتی ہے۔” اونھ، میں نے سوچا، یہ میرے مکالمے تھوڑے ہوتے ہیں گھر میں سب ایسے ہی بولتے ہیں، میں دوسری زبان سے کہاں سے لاؤں۔
"برنارڈشا سے متاثر ہیں؟”
"بے حد، میں نے ایک ڈرامہ میں برناڈشا کے یہاں سے پورا کا پورا سین اڑالیا ہے، کیوں کہ مجھے وہ سین بہت پسند آیا تھا۔ اس کا حوالہ بھی نہیں دیا مجھے اپنی آنے والی ذمہ داریوں کا اس وقت تک اندازہ نہیں تھا۔ یہ خبر نہ تھی کہ ایک دن "جواب داری” کرنا ہوگی۔ اصل میں میں نے وہ سین ایک فلمی کہانی کے لئے اڑایا تھا۔”
میں نے سوچا اس سے پہلے یہ میری ٹانگ کھینچیں خود ہی کیوں نہ سر پھوڑلوں۔ "آپ بھی کے جروم جروم اور پی۔ جیوڈپاس سے متاثر ہوئے ہوں گے۔” میں نے کہہ تو دیا، لیکن اب سوچتی ہوں کہ صرف ایک بات مشترک تھی، یعنی دونوں مزاح نگار تھے،۔ شاید چڑ کر کہہ دیا ہوگا۔ وہ نہایت ہوشیاری سے ٹال گئے اور اشارے سے بیرے کو بلایا۔ بڑی پریشان صورت بناکر چاروں طرف دیکھا۔
"معاف کیجئے گا۔” بڑے ادب سے مجھ سے معذرت چاہی، پھر سرگوشی میں بیرے سے کچھ کہا۔ وہ بڑے زور زور سے سرہلانے لگا۔
"صاحب آپ اطمینان رکھو، کوئی بات نہیں۔” بیرے نے ہمت بڑھائی۔
"نہیں اگر کوئی اعتراض ہوتو……” پھر سہم کر چاروں طرف دیکھا۔
"آپ بولو صاب”
"منیجر صاحب کو تو کچھ”
"نہیں صاحب مینجر صاحب کو کون بولے گا؟” ….. ہم کو بولو …..”
پطرس نے بڑی شکرگزاری سے اسے دیکھا۔ پھر بالکل کان کے پاس ہونٹ لے جا کر بولے۔
"کافی۔”
"کافی؟” بیرا چکرایا۔
"ہاں اور نمکین بسکٹ بھی۔” بیرامجسم سوال بنا کبھی مجھے اور کبھی انہیں دیکھنے لگا۔
"کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے ….. شاباش”۔
"نہیں صاحب اطمینان رکھو” ….. بھونچکا سا بیرا کافی لینے چلا گیا۔ جاتے جاتے اس نے حیرت زدہ ہو کر پلٹ کر دیکھا جیسے کہتا ہو، دماغ تو سلامت ہے حضور کا۔ پطرس نے نہایت معین خیز انداز میں آنکھ ماری، بے چارہ گھگیا کر ہنسنے لگا۔
اور مجھے معلوم ہوا پطرس مزاح نگار ہی نہیں ان کی زندگی میں شرارت اور چلبلا پن ہے۔ ان کی زبان میں لطیفے ہیں اور برتاؤ میں ہلکا بھولا پن ان کے طنز میں تیکھا پن ہے۔ انہوں نے زندگی کا تنگ و تاریک رخ نہیں دیکھا۔ وہ الجھنوں کا شکار نہیں تھے، آزاد زندگی کے قائل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نئے لکھنے والوں کی تلخی اور جھنجھلاہٹ سے مکدر سے ہوجاتے تھے۔
جسم فروشی اور حرامی بچوں کے سوال کو وہ کچھ زیادہ مہذب نہیں سمجھتے تھے۔ ان دنوں میں کسی سے بھی ملتی تھی، "لحاف” کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔ میری چڑ سی ہوگئی۔ پطرس نے لحاف ہی نہیں اور بھی جنسی الجھنوں پر کوئی بحث نہ کی۔
"میں اپنی کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کرانا چاہتی ہوں۔” میں نے انہیں ذرا رسانیت کے موڈ میں پاکر کہا۔
"کیوں؟” وہ بڑے کھرے پن سے بولے، "آپ کی کہانیاں ترجمہ نہ ہوں گی تو کیا انگریزی ادب غریب رہ جائے گا یا شاید آپ کے خیال ہے، انگریزی کا جامہ پہن کے تحریر زیادہ بلند ہوجائےگی۔”
پھر جی جلا۔ ایک دم سے یہ انسان اتنا خشک کیوں ہوجاتا ہے۔ "ہےہیں، یہ بات تو نہیں اصل میں انگریزی میں چھپنے سے پیسے زیادہ ملتے ہیں۔ احمد علی نے ایک کہانی کے مجھے چار نبونڈ دلوائے تھے۔”
کچھ لاجواب سے ہوگئے اور مسکرانے لگے، "فکر نہ کیجئے ایک دن آئے گا لوگ خود ہی اس طرف توجہ دیں گے۔” پھر میں نے فکر نہ کی۔
ایک ایک لمحہ پر لطف گزرا۔ گھنٹوں باتیں کرنے کے بعد بھی ابھی زنبیل میں بہت کچھ تھا۔ وہ مجھے چرچ گیٹ اسٹیشن تک چھوڑ گئے۔ میں ان دنوں ملاڈ رہتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے میرے بارے میں ایک مضمون لکھا جو میں نے نہیں پڑھا، لوگوں سے ٹکڑے سنے۔ ایک بار دہلی جانا ہوا تو دعوت میں بلایا۔ وہاں فیض بھی تھے۔ مگر بڑی چپ چاپ سی محفل تھی۔ جس کا میرے دماغ پر دھندلا سا بھی عکس نہیں۔ کچھ سیاست کی باتیں زیادہ ہوئیں جو میرے پلّے نہیں پڑیں۔
اگلے سال بھی بعد میں نے نوکری سے استعفادے دیا۔ شاہد کی نوکری بھی کچھ ڈھل مل سے نظر آنے لگی۔ میں نے پھر نوکری کا ارادہ کیا۔ نہ جانے کیا دل میں سمائی پطرس کو لکھ مارا کہ نوکری چاہیے کہیں بھی ملے۔ چار پانچ سو سے کم میں گزر نہیں گی۔ ہفتہ بھر کے اندر چھ سو روپے کی نوکری معہ تقرر کی خط کے مل گئی۔ اس عرصہ میں مجھے فلم کا کام مل گیا تھا اور شاہد کو بھی ڈائرکشن مل گیا۔ میں نے پطرس کو بڑي شرمندگی کا خط لکھا۔ معافی مانگی۔
پھر ملک تقسیم ہوگیا۔ جاگیریں بٹیں، زبان بٹی، ادب بٹا اور ادیبوں کا بھی بٹوارا ہوگی۔ آدھا کنبہ یہاں آدھا وہاں چلاگیا۔ پطرس ادب کی دنیا سے سیاست کے آسمان پر پہنچ گئے۔
مگر نقوش میں ان کا ایک خط پڑھ کر نجانے کیوں محسوس ہوا …..
عالِم کو کبھی موت نھیں آتی دوستو۔۔۔۔۔۔۔
پطرس دور جاکر بھی پاس ہی کھڑے ہیں۔ آج ہی میں نے "مضامین پطرس خریدے ہیں، پڑھ رہی ہوں۔ پڑھ کر پلنگ سے نیچے گرنے کی نوبت تو نہیں آئی مگر میرے دل و دماغ کی تکان سی اتررہی ہے۔ وہ قلم جو تھکے ہوئے دماغوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی مہلت بخش دے خاموش ہوچکا، مگر دور میرے تخیل میں دو بھاری بھاری غلافی آنکھیں آج بھی بے ساختہ مسکرارہی ہیں۔”

* مشہور مصنف اور عصمت چغتائی کے بھائی عظیم بیگ چغتائی
* مشہور فلمی ڈائیریکٹر اور عصمت چغتائی کے شوہر شاہد احمد دہلوی
* مشہور افسانہ نگارسعادت حسن منٹو
(پروفیسر پطرس بخاری کے مضمون ” میبل اور میں ” سے انتخاب )
انتخاب و کمپوز کاری : پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفرانوارحمیدی