اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

885,906FansLike
10,000FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

کشمیری کی آزادی ۔۔۔ (عرفان نواز رانجھا)

اڑسٹھ سال سے کشمیر ی عوام آزادی کے لیے کوشاںہے ہر روز حصولِ آزادی کی کتاب میں نئے صفحے کا اضافہ ہوتا ہے اور مورخ خون ِشہیداں سے یہ کتاب اڑسٹھ سال سے لکھ رہا ہے۔ اس تحریکِ آزادی میں اب تک دو لاکھ کشمیری پروانے آزادی کی شمع پر مر مٹے ہیںاور حالیہ بھارتی مظالم کی لہر میں 65کشمیری شہادت کا رتبہ پا چکے ہیں۔ آزادی تحفے میں نہیں ملتی اور نہ قابض مقبوضہ جنت نظیر خطہ کشمیری عوام کو طشتری میں سجا کر دے گا،کشمیری عوام کو اپنی آزادی چھین کر لینی پڑے گی۔
ہر خطے کی عوام کو ان کی مرضی اور منشاء کے مطابق آزادی ملے اگر یہ فقرہ اقوام متحدہ کی قرادادوں کے عین مطابق ہے تو امن اور جمہوریت کا راگ الاپنے والی امریکی اور اسرائیلی لونڈی اقوام متحدہ،بھارت نواز طاقتیں اور خود کو دنیا کا ٹھیکیدار سمجھنے والا امریکہ آزادی کشمیر کے عنوان پر آنکھیں کیوں موند لیتے ہیں اور یہ پچھلے اڑسٹھ سالوں سے کشمیری عوام پر بھارتی مظالم سے چشم پوشی کر رہے ہیں ۔ حیرانگی یہ ہے کہ جب سوڈان میں مسلمان اور عیسائی آبادی والے علاقوں کی علیحدگی کا معاملہ آیا تو وہاں 07فروری 2011 کو استصواب رائے سے جنوبی سوڈان کو شمالی سوڈان سے علیحدہ کر دیا گیا مگر کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے مسئلہ کشمیر کی طرف توجہ نہیں دلائی اور نہ ہی بان کی مون کا دل پسیجاکہ جنوبی سوڈان کی شمالی سوڈان سے علیحدگی ہو رہی ہے وہ بھی سوڈانی عوام کے حق رائے دہی سے تو کشمیر کا مسئلہ بھی انہی بنیادوں پر حل کرو ،اسی طرح جب اسکاٹ لینڈ کی پارلیمنٹ نے نومبر2013میں "یونائیٹڈ کنگڈم” سے علیحدگی کے لیے بل پاس کیا تو برطانیہ نے اسکاٹ لینڈ میں اپنی فوجیں کیوں نہ اتاریںاور 18ستمبر2014میں اسکاٹ لینڈ کی "یونائیٹڈ کنگڈم”سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے ریفرینڈم ہی کو حرفِ آخر کیوں سمجھا ، تب بھی یورپین یونین کے کسی نمائندے اور لیڈر کے منہ سے آواز نکلی نہ کسی امریکی کلغی والے سینیٹر نے کشمیر کی آزادی کے بارے لب کشائی کی۔ اب حال ہی میں برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی یا ساتھ رہنے کے لیے ریفرینڈم کروایا گیا تو تب یورپین یونین کے تمام ممالک کو مل کر برطانیہ پر حملہ کر کے گوروں کی آزادی سلب کر لینی چاہئے تھی لیکن کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آئی اور حیران کن بات ہے ان تمام ریفرینڈمزپر کسی نے عتراض کیا اور نہ ہی اقوام متحدہ کے چارٹر پر لکھی کوئی قانونی شق آڑے آئی ۔ کشمیر ی بھی استصواب رائے سے اس خطے کا فیصلہ چاہتے ہیں لیکن دیکھا جائے تو کشمیر میں ریفرینڈم کی ضرورت نہیں وہاں تو ہر روز ریفرینڈم ہوتا ہے جب حریت پسند لیڈر احتجاج کی کال دیتے ہیں تو پورا مقبوضہ کشمیر ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر امڈ آتا ہے ، جب کوئی بے گناہ کشمیری کو شہیدہوتا ہے تو اس کے جنازے میں ہزاروں افراد شامل ہو کر فرضِ کفایہ ادا کر نے کے ساتھ یک زبان ہو کر آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں تو ان نعروں کو آزادی کے بیلٹ پیپرز پر مہرسمجھا جائے یہ ریفرینڈم کسی اہل ِنظر کو کیوں نظر نہیں آتے۔ امریکہ بہادر نے کئی ممالک میںجمہوریت اور امن کی آڑ میں خون آلود کھیل کھیلا اور نعرہ لگایا کہ ان ممالک میں عوام امنگوں کے مطابق جمہوریت قائم کرنا ناگزیر ہو گیاتھا مگرکشمیری عوام توچیخ چیخ کر اپنا حق مانگ رہی ہے اور کشمیرکے حریت پسند لیڈران نے دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے مگر ان کی کہیں شنوائی نہیں ہورہی کیاہمیںمسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ،یورپین یونین اور امریکہ بہادر کا دوہرا معیار واضح نظرنہیں آتا کہ یہ تمام طاقتیں دنیا کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے اندر صرف جماعت اسلامی اور جماعت الدعوۃکے لیڈران پاکستان میں ہر فورم پر بلکہ اپنی ہر تقریر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیر کی آزادی پرسخت اور دو ٹوک موقف اپنائے ہوئے ہیں بلکہ جماعت الدعوۃ نے تو مورخہ18.07.2016کو کشمیر کاروان کے ذریعے پاکستانی اور عالمی حکمرانوں کی توجہ کے لیے لاہور سے اسلام آباد تک کشمیر کاروان چلایا اور جنہیں یہ کام کرنا چاہئے تھا وہ گائوتکیے سے ٹیک لگائے مریدین سے حلوے کی فرمائش کر رہے ہوں گے۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان صاحب اللہ پاک نے آپ کو موقع دیا ہوا ہے اور آپ سے گزارش ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کو ساتھ ملا کر حکمران جماعت پر کشمیر کے معاملہ پر دبائو بڑھانا چاہیے اگر پاکستان کے اندر سے آواز اٹھے گی تومسئلہ کشمیر پاکستان سے باہر نکلے گا اور سفارتی سطح پر کشمیر کے کیس کو جاندار طریقے سے لڑا جا ئے ، اقوام متحدہ اور سفارتی سطح پرزور تحریک چلائی جائے تاکہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوریت کے دعویدار کا مکروہ چہرہ عیاں کیا جا ئے ۔