اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

884,507FansLike
9,999FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

کرپشن فری پاکستان

پانامہ لیکس کے نام سے سامنے آنے والے انکشافات دنیا بھر میں عوامی دلچسپی کا ایک اہم موضوع ہیں جس کے نتیجے میں بعض ملکوں میںتو حکمران اخلاقی بنیادوں پراب تک مستعفی بھی ہو چکے ہیں جبکہ بر طانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کوایوان میں آکر اپنی بےگناہی کے دستاویزی ثبوت پیش کر ناپڑے، روس اور چین میں بر سر اقتدار حکمران بھی اس صف میں شامل ہیں جو اپنے اثاثہ جات کے حوالے سے قوم کو صفایاں پیش کر رہے ہیں اس سلسلے میں بھارت میں بھی ایک با اختیار جوڈیشل کمیشن قائم ہو چکاہے جو پانامہ لیکس کے مطابق آف شور کمپنیوں میں ملوث ہو نے والے بھارتیوں کے متعلق تحقیقات کا آغاز کرچکا ہے تا ہم اپنی قومی تاریخ کے عین مطابق پاکستان میں حالات باقی دنیا کے مقابلے میں خاصے مختلف ہیں یہاں اپوزیشن کے مطالبے پر حکومت‘ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سر براہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کر نے سے تو اتفاق کر چکی ہے تا ہم ٹی او آرز یا ضابط کار کی آڑ لے کر معاملے کو طوالت دی جا رہی ہے حالانکہ اپوزیشن جماعتوں نے متفقہ ٹرمز آف ریفرنس پیش کر کے وزیر اعظم کے خاندان کےخلاف منصفانہ اور شفاف تحقیقات کے مطالبے کی گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک دی ہے تا ہم حکومت نے انہیںمتعصبانہ قرار دے کر یکسرمسترد کردیا ہے اپوزیشن میں شامل پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی تو آج بھی اخلاقی بنیادوں پر وزیر اعظم سے استعفیٰ کے مطالبے پر قائم ہیں تا ہم دیگر سیاسی جماعتیں وزیر اعظم کے استعفیٰ کو جوڈیشل کمیشن کی طرف سے اخذکئے جانے والے نتائج سے منسلک کر نے کے موقف کی حامی ہیں تاکہ کسی نئے بحران کی بجائے حکومتی معاملات ہموار طریقے سے چلتے رہیں جو ایک متوازن سوچ ہے جس سے حکومت کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔پانامہ لیکس میں وزیر اعظم کے بیٹے حسن نواز اور حسین نوا ز سمیت کم وبیش 220 اور دوسری قسط میں 400مزید ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنی دولت کوپوشیدہ رکھا ہوا ہے اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ معلومات ایک عام پاکستانی کےلئے انکشاف کے زمرے میںہر گز نہیں آتیں کیونکہ وہ ایک عرصے سے جانتا ہے کہ ہوس کے شکار ہمارا حکمران طبقہ نے ملک سے لوٹی گئی دولت غیر ممالک میں چھپا رکھی ہے جس کا مسلسل تذکرہ گزشتہ دو تین عشروں سے پاکستانی میڈیا میں بھی ہو تا رہا ہے تا ہم بد قسمتی سے اس محاذ پر حکومت اور اپوزیشن ہمیشہ ایک دوسرے کےلئے سہولت کار کا کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے‘ ہم حکمرانوں کے گلے میں پھندا ڈال کر انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کا پر زور سیاسی نعرہ لگاتے ہیں جبکہ خود حکومت میں آکر سا بقہ کر پٹ حکمرانوں کو لوٹ کھسوٹ کے عمل کےلئے اپنا استاد بنا لیتے ہیں جس کا نتیجہ آج پورے پاکستان میں جگہ جگہ پھیلی معاشی عدم مساوات اور نا انصافی کی شکل میںہمارے سامنے آرہا ہے جو پاکستان کے زوال کا حقیقی راز ہے۔پانامہ لیکس کے بعد جنرل راحیل شریف کی قیادت میں افواج پاکستان نے کرپشن کے خاتمے اور بے لاگ احتساب کےلئے نا صرف اپنا موقف قوم کے سامنے کھل کر پیش کرد یا بلکہ عملی طور پر اپنے گھر سے احتساب کا عمل شروع کرتے ہوئے دوجر نیلوں سمیت در جن بھردیگر فوجی افسران کو سزائیں بھی سنائی، جسے بقول ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ ‘فوج کے ادارے میں بھی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا اور سراہا گیا ہے۔ جنرل راحیل شریف متعدد مر تبہ کر پشن اور جرم کے گٹھ جوڑ کو پاکستان کی سلامتی کےلئے سب سے بڑا چیلنج اور ایک سنگین خطرہ قرار دے چکے ہیں جسے توڑنے کےلئے کراچی سمیت ملک کے مختلف حصوں میںآج بھی آپریشنز اور اقدامات جاری ہیں۔پاکستان میں اس وقت کر پشن کےخلاف بخاراور زیرو ٹالرینس کا ایک ماحول بنا ہوا ہے، لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے دو کروڑ رو پے کی کر پشن پر اپنے تین عدالتی ملازمین کی بر طرفی،462ارب کی کر پشن پر ڈاکٹر عاصم کےخلاف فر د جر م عائد کئے جانے،سیکرٹری خزانہ بلوچستان کے گھر سے کرپشن کے 70کروڑ رو پے اور سونے کی برآمدگی پر ان کی گرفتاری اور اسی صوبے کے مشیر خزانہ کا استعفیٰ اسی عوامی دباﺅ کا نتیجہ ہیں تا ہم بد قسمتی سے اس محاذ پر سیاسی حکومت اور جماعتیںآج بھی اپنے فرائض سے غفلت برتنے پر بضد ہیں۔مثال کے طور پر پانامہ لیکس ہی کو دیکھ لیجئے، تحقیقات پر توجہ مر کوز کر نے اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کر نے کی بجائے حکمران بھی جلسے جلوسوں کی شکل میں احتجاج پر نکل پڑے ہیں جس کا مقصد دھول اڑانا اور وقت ضائع کر کے بے لاگ احتساب کے متفقہ قومی مطالبے کو ٹالنا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج ملک بھر میں جان بوجھ کر ایک مصنوعی سیاسی فضاءبنائی جا رہی ہے جس کا مقصدحکومت کی طرف سے یہ تاثر دینا ہے کہ اسے بعض قوتوں کی طرف سے عدم استحکام سے دوچار کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی نا عاقبت اندیشی کے باعث ممکنہ طور پر رونما ہونے والے کسی حادثے کے بعد مظلومیت کا لبادہ اوڑھ سکے تا ہم پاکستانی قوم آج سیاسی شعور اوربالغ نظری کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جسے نہ تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی تعصب کے نام پر گمراہ کیاجا سکتا ہے قوم دیکھ رہی ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کئے گئے ٹی او آرز میں سب کے احتساب کی بات کی گئی ہے تا ہم اس کےلئے آغاز حکومت سے ہی کر نے کی شرط رکھی گئی ہے جبکہ حکومت 1956ءکے ایکٹ کے تحت اپنی پسندکا ایک لولا لنگڑا کمیشن تشکیل دینا چاہتی ہے تا کہ تحقیقات کو کئی عشروں پر محیط کر دیا جائے جس کا مقصد صرف اور صرف وقت گزاری ہے تاہم پوری قوم،میڈیا اور فعال اپوزیشن اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔موجودہ بحران حل کر نے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سنجیدہ طرز عمل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مل بیٹھ کر ٹرمز آف ریفرنس طے کریںاس کے بعد اپنے اپنے موقف کی حمایت میں ٹھوس شواہد پیش کریںاور نتیجہ کمیشن کی صوابدید پر چھوڑ دیں بصور ت دیگر سیاسی بحران شدت اختیار کرجائیں گے۔ جس کے آثار اضطراب کی شکل میں فوجی حلقوں میں بھی واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں بھی سیاستدان اپنی بعض غلطیوں کےلئے فوجی قیادت کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے ہیں، مثال کے طور پر آج بھی کہا جاتا ہے کہ 1977ءکی تحریک کے دوران سیاستدانوں کے مابین معاملات طے پاگئے تھے تا ہم اس بیل کو اس وقت کی فوجی قیادت نے منڈھے نہیں چڑھنے دیاجبکہ آج پوری قوم دن کی رو شنی میں خود اپنی آنکھ سے دیکھ رہی ہے کہ ضرب عضب،نیشنل ایکشن پلان اور اب تک مخالفین کی طرف سے ”مقدس گائے“کا عنوان پانے والی فوج خود احتسابی کے ذریعے قوم کی توقعات پر پورا اتر رہی ہے جس کے نتیجے میں فاٹا،بلوچستان،کراچی اور پورے ملک میں عمومی طور پر امن و امان کی صورتحال ماضی کے مقابلے میں بدرجہ بہتر ہے جبکہ سیاستدان اپنی قومی ذمہ داریاں ادا کر نے کی بجائے باہمی سر پھٹول میںمصروف ہیںاس سلسلے میں کر پشن اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے قومی دولت باہر بھیجنے جیسے الزامات کی زدمیں آئی اورقومی ذمہ داریوں پر فائز حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ بنتی ہے کہ وہ در پیش حالات میں دانائی اور ہوش مندی سے کام لے بصورت دیگر جمہوری حلقوں کی شدید خواہش کے برعکس ملک میں کوئی انہونی بھی رونما ہو سکتی ہے جسے رو کنے کےلئے سیاستدانوں کواب ”کر پشن فری پاکستان“ کی کڑوی گولی نگلناہی ہو گی۔٭٭
(بشکریہ روزنامہ خبریں)