اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

883,000FansLike
10,000FollowersFollow
568,900FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

’’خادمِ اعلیٰ! مَینوں وی کر، جھنڈے والی کار، عطائی‘‘(اثر چوہان)

پنجاب مسلم لیگ ن کے صدر خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف، جنوبی اور وسطی پنجاب کے عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے وزیروں کی "New Eleven” لے آئے ہیں۔ الیون عام طور پر کرکٹ کے کھلاڑیوں کی ہوتی ہے۔ کیا خادمِ اعلیٰ پنجاب کے ذہن میں صِرف عمران خان اور اُن کی پاکستان تحریکِ انصاف کو چیلنج کرنا ہے؟
میرے دوست ’’شاعرِ سیاست‘‘ خادمِ اعلیٰ پنجاب کے بہت بڑے فین ہیں اور تھوڑا تھوڑا میں بھی۔ ایک وجہ تو یہ کہ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے خادمِ اعلیٰ پنجاب کو ’’شہباز پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا تھا اور دوسری وجہ یہ کہ ’’شہبازِ پاکستان‘‘ پاک پنجاب کے ’’فی الحال‘‘ پہلے وزیراعلیٰ ہیں جو عام جلسوں میں اپنی گلوکاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ پنجاب کے سابق منتخب وزیراعلیٰ جناب محمد حنیف رامے اور نگران وزیر اعلیٰ جناب نجم سیٹھی کو نامور شعراء کے ہزاروں اشعار یاد تھے لیکن وہ تحت اُللفظ پڑھتے تھے۔ میری اور ’’شاعرِ سیاست‘‘ کی متفقہ رائے ہے کہ ’’جو لوگ ’’شہباز پاکستان‘‘ کی گلوکاری پر اعتراض کرتے ہیں، وہ بد ذوق ہیں‘‘۔
گلوکاری ایک فن ہے اور اللہ تعالیٰ کی دین بھی۔ مجھے لڑکپن سے جوانی (کے آغاز) تک گلوکاری کا شوق رہا۔ میرے والد صاحب نے مجھے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی تو مَیں نے گلوکاری چھوڑ دی۔ ایک دِن مجھے اُداس دیکھ کر والد صاحب نے کہا کہ ’’ تمہارے لئے گلوکاری ٹھیک نہیں ہے لیکن اگر تمہیں موقع مِلے تو اچھے گلوکاروں کو سُن لِیا کرو!‘‘۔ اُس کے بعد جب بھی مجھے موقع مِلا تو مَیں نے محفلوں اور الیکٹرانک میڈیا پر گلوکاروں اور گلوکارائوں کو گاتے دیکھا اور سُنا۔ سیاستدان گلوکاروں کا مَیں بہت بڑا فین ہُوں۔
’’شہباز پاکستان‘‘ نے اپنے والدِ مرحوم میاں محمد شریف کے انتقال کے بعد "Publically” گلوکاری شرو ع کی۔ ممکن ہے برادرِ بزرگ جناب وزیراعظم نے اُنہیں اجازت دے دی ہو؟ جنابِ وزیراعظم نے 9 مئی 2014ء کو اپنی بہاولپور کی تقریر میں ’’شہباز پاکستان‘‘ کے خطاب کے دوران میز اور مائیک "Mike” توڑنے پر طنز تو کی تھی لیکن اُن کی گلوکاری پر کوئی اعتراض نہیں کِیا تھا۔ 2014ء کے دھرنے میں جناب عمران خان کی دھمکی "On Record” ہے کہ ’’مَیں بھی وزیراعظم نواز شریف کے گانوں کی کیسٹ آئوٹ کرسکتا ہُوں‘‘۔ اُس کے بعد خان صاحب خاموش ہو گئے۔ شاید تحریکِ انصاف کے دو گلوکار لیڈروں جناب عطا اللہ عیسیٰ خیلوی اور جناب ابرار اُلحق نے درخواست کی ہو کہ ’’خان جی! کیوں ساڈا وِی بھٹّا بٹھان لگے او؟ جے وزیراعظم ہوراں دی کیسٹ مارکیٹ وِچ آگئی تے ساڈِیاں کیسٹاں کون خریدے گا؟‘‘
مَیں نے وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دِیا تھا کہ ’’وہ قومی اسمبلی میں قومی بجٹ وزیرِ خزانہ جنابِ ڈار کے بجائے گلوکاروں سے پڑھوایا کریں‘‘۔ اِس طرح وزیر خزانہ ایوان میں حزبِ اختلاف کی "Hooting” سے بچ جایا کریں گے‘‘ لیکن ’’مفت مشورے‘‘ کی کون قدر کرتا ہے؟ اگر میرا مشورہ مان لِیا جاتا تو صوبائی اسمبلیوں میں وزرائے خزانہ کے بجائے گلوکار/ گلوکارائوں کو بجٹ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوتی اور اسمبلی کی ہر "Gallery” بھی مہمانوںسے بھری ہوتی۔ پنجاب اسمبلی میں ’’شہبازِ پاکستان‘‘ بجٹ پڑھتے تو ایوان کی ہر دیوار دوسری دیواروں سے کہہ رہی ہوتی کہ…
’’سیّونی، میرا ماہی، میرے بھاگ جگاون آگیا‘‘
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1970ء کی انتخابی مہم میں لاہور اور اُس کے بعد دوسرے کئی شہروں کے عام جلسوں میں سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبداُللطیف بھٹائیؒ کا کلام گا کر عوام کو خوش کر دِیا تھا۔ روایت ہے کہ ’’جناب ممتاز علی بھٹو نے بھٹو صاحب سے کہا کہ ’’آپ گانے کا پروگرام دوستوں کی محفل تک محدود رکھیں‘‘۔ میری معلومات کے مطابق جناب قمر زمان کائرہ پیپلز پارٹی کے واحد یا سب سے بڑے گلوکار سیاستدان ہیں۔ مَیں انہیں گلوکاری میں ’’شہبازِ پاکستان‘‘ سے زیادہ نمبر دیتا ہُوں۔ ووٹ اِس لئے نہیں دے سکتا کہ میرا ووٹ اسلام آباد کی انتخابی فہرست میں درج ہے۔ 30 جولائی 2013ء کو مَیں نے کائرہ صاحب کو "Face Book” پر ایک نجی محفل میں صوفی شاعر حضرت میاں محمد بخشؒ کا کلام گاتے ہُوئے سُنا تھا۔ کلام تھا…
’’مَیں کوجہی، میرا دِلبر سوہنا
اَیویں صاحب نُوں، وڈیائِیاں
مَیں گلِیاں دا رُوڑا، کُوڑا
محل چڑھایا، سائِیاں‘‘
ترجمہ ’’مَیں بد صُورت ہُوں لیکن میرا محبوب خوبصورت۔ مَیں تو گلیوںکا کوڑا کرکٹ تھی لیکن میرے صاحبؔ کا یہ بڑا پن ہے کہ مجھے محل میں بِٹھا دِیا گیا‘‘۔ حالانکہ میدانِ سیاست میں جناب قمر زمان کائرہ گلیوں کا رُوڑا کُوڑا نہیں۔ بلاول صاحب کی طرح خوبصورت تو نہیں جناب جناب آصف علی زرداری سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ صاحبؔ زرداری صاحب ہیں یا بلاول صاحب؟ جو بھی ہیں، کائرہ صاحب کو پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کا صدر بنا کر صاحبؔ نے اُن پر کوئی احسان نہیں کِیا۔ جنابِ کائرہ پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر بننے کے اہل تھے اور اُس کے ساتھ یہ اعلان بھی ضرور تھا کہ ’’اگر پنجاب میں پیپلز پارٹی کو بھاری مینڈیٹ مِل گیا تو قمر زمان کائرہ وزیراعلیٰ ہُوں گے‘‘۔ پھر ہر انتخابی جلسے میں ووٹرز (خواتین و حضرات) ’’شہبازِ پاکستان‘‘ اور جنابِ کائرہ کے فن سے لطف اُندوز ہوتے۔ موسیقی کے نو آموز طلبہ و طالبات بھی دونوں قائدین سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتے‘‘۔
مَیں اور ’’شاعرِ سیاست‘‘ (بھیس بدل کر ہی سہی) ’’شہبازِ پاکستان اور جناب قمر زمان کائرہ کے جلسوں میں ضرور شریک ہوتے اور شاید مجھے تو اُن دونوں قائدِین کی گلوکاری سے اپنی سوئی ہوئی گلوکاری کو جگانے کا موقع بھی مِل جاتا؟ مجھے میرے دوست بابا ٹلّ نے خواب میں بتایا کہ ’’آصف زرداری صاحب نے ’’شہبازِ پاکستان‘‘ کو وزیراعلیٰ پنجاب منتخب کرانے کے لئے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ’’مُک مُکا‘‘ کر لِیا ہے کیونکہ جنابِ وزیراعظم کی ہدایت پر اب ’’شہبازِ پاکستان‘‘ جنابِ زرداری سے لُوٹی ہوئی دولت وصول کرنے کیلئے انہیں سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان نہیں کرتے‘‘۔ 26 نومبر 2015ء کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر خبر آئی تھی کہ ’’جناب قمر زمان کائرہ کو پنجاب پیپلز پارٹی کا صدر بنایا جا رہا ہے۔ جنابِ کائرہ کی مسحور کُن گائیکی کے حوالے سے 28 نومبر 2015ء کے ’’نوائے وقت‘‘ میرے کالم کا عنوان تھا۔ ’’کائرہ آگیا مِدان وِچّ‘‘۔ عنوان ’’شاعرِ سیاست‘‘ کے اِن شعروں سے لِیا گیا تھا۔
’’مِٹّھے سُر ایہدی تان وِچّ، ہے جمالو!
شعر لِکھّاں ایہدی شان وِچّ، ہے جمالو!
لَے کے تِیر، کمان وِچّ، ہے جمالو!
کائرہ آگیا، مدان وِچّ، ہے جمالو!‘‘
’’شہبازِ پاکستان‘‘ کی کابینہ میں مزید گیارہ وزیروں کی شمولیت سے مجھے لڑکپن میں سُنا یہ لطیفہ یاد آگیا… ’’ایک لڑکے نے دوسرے سے پوچھا۔ ’’ تُسِیں کِنے بھرا ہو؟‘‘ اُس نے کہا کہ ’’ پنج!‘‘۔ پہلے لڑکے نے اپنی گردن کو اکڑا کر کہا ’’جے تُسِیں دس بھرا وِی ہوندے تاں میرا کِیہ کر لَیندے؟‘‘ بہرحال جن ارکان پنجاب اسمبلی کو وزیر نہیں بنایا گیا، اُن کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہُوئے ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے ’’شہبازِ پاکستان‘‘ سے مخاطب ہو کر کہا…
’’تیرے مِٹھڑے بول، مَینوں دیندے نے، شفاء
چنگی لگدی، تیری سَر گم، سا، رے، گا، ما، پا
کردا رَہواں گا، ساری حیاتی، تیرے پیاریاں دِی، سیوا
یخادمِ اعلیٰ، مَینوں وِی کر، جھنڈے والی کار ،عطائ‘‘
(بشکریہ : نوائے وقت)