اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

884,110FansLike
9,999FollowersFollow
568,900FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

اسلام آباد :شریف خاندان حقائق عوام کے سامنے لائے :سپریم کورٹ

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے دو ہفتوں کے وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع کی تو سلمان اکرم راجہ نے صحت یابی پر جسٹس شیخ عظمت سعید کو خوش آمدید کہا ۔ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اللہ کے شکر گزار ہیں جس نے جسٹس عظمت سعید کو صحت عطا کی اور جس شخص نے بھی فاضل جج کی صحت کیلئے دعا کی ، اس کے بھی شکر گزار ہیں ۔ دلائل دوبارہ شروع کرتے ہوئے حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھاکہ عدالت نے ان کے سامنے چند سوال رکھے ہیں ۔ یہ ٹرائل ہے اور نہ ہی ان کے موکل کوئی گواہ ہیں ۔ ریکارڈ میں خلا ہوسکتا ہے مگر جو ریکارڈ دستیاب ہے اسی کے مطابق جواب دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ انیس سو ننانوے میں شریف فیملی کا سارا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا ۔ چالیس سے پنتالیس سال کا ریکارڈ پیش کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اب تک کے دستیاب ریکارڈ سے وزیر اعظم کا کوئی غلط اقدام ثابت نہیں ہوتا ۔ یہ فوجداری مقدمہ بھی نہیں ہے جبکہ نیب قانون کے تحت بھی شواہد کا بوجھ دوسرے فریق پر ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت انکوائری کے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے ۔ حسین نواز کے انٹرویو کو سیاق و سباق میں ہی دیکھا جائے ، ارسلان افتخار کیس میں سپریم کورٹ یہ قرار دے چکی ہے کہ عدالت 184 (3) کے تحت کسی کو ملزم نہیں ٹھہرا سکتی اور تحقیقات کرنا مناسب فورم کا کام ہے ۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فریقین کے حقائق جاننے کے بعد عدالت معاملہ کسی مناسب فورم پرایکشن کیلئے بھیج سکتی ہے۔ این آئی سی ایل اور حج کرپشن میں بھی عدالت نے دوسرے فورم سے تحقیقات کرائیں۔ اس کیس میں عدالت کے پاس کمیشن بنانے کا بھی اختیار ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا کمیشن فوجداری مقدمے کی طرح ٹرائل کرسکتا ہے اورکیا یہ عدالت آرٹیکل 184 (3) کے تحت کسی دوسری عدالت کے اختیارات لے سکتی ہے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے دلائل مکمل کریں اور اس کے بعد عدالتی سوالات کے جواب دیں ۔ سلمان اکرم راجہ کے دلائل کے دوران چیئرمین تحریک انصاف عمران خان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے اور وہ آنکھیں بند کرکے تسبیح پر ورد کرتے رہے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز نے لندن فلیٹ کی ملکیت تسلیم کی ہے ۔ لندن فلیٹ کی ملکیت پر کوئی تنازع نہیں ہے مگر کیا یہ وضاحت مانگی جاسکتی ہے کہ یہ فلیٹ بچوں نے کیسے خریدے ۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایاکہ لندن فلیٹ حسین نواز نے اپنے دادا کے کاروبار سے لئے۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ یہ فلیٹ وزیراعظم نے غلط طریقے سے خریدے مگر الزام لگانے والوں نے ریکارڈ پر ایسی کوئی بھی چیز پیش نہیں کی۔ شریف فیملی کے کاروبار کی ایک تاریخ ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عہدے کے غلط استعمال سے فلیٹ خریدے گئے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ رحمان ملک نے لندن فلیٹس سے متعلق رپورٹ اپنی معطلی کے دوران تیار کی۔ انھیں سرکاری طور پر ایسی کوئی تحقیقات نہیں سونپی گئی تھیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ رحمان ملک کی رپورٹ میں جن اکائونٹس کا ذکر ہے کیا آپ ان سے انکار کرتے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ رحمان ملک کی رپورٹ مسترد کرتے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ بھی رپورٹ مسترد کرکے ملزمان کو بری کرچکی ہے۔ قانون کی نظر میں اس رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔ رحمان ملک کی رپورٹ پر ہی شیزی نقوی نے لندن عدالت میں بیان حلفی دیا۔ اس موقع پر سلمان اکرم راجہ نے شیزی نقوی کا بیان حلفی بھی جمع کرایا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ ثابت ہے کہ انیس سو ننانوے سے پہلے لندن فلیٹس وزیراعظم کے تھے نہ ہی شریف فیملی کی ملکیت میں تھے۔ فلیٹس والے کمپنی سرٹیکفیٹس حسین نواز کو دو ہزار چھ میں ملے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا صرف کمپنیوں کے سرٹیکفیٹس حوالے کئے گئے یا فلیٹس بھی دیئے گئے تھے۔ سرٹیفکیٹس لینے کے بعد رجسٹرار سے رجسٹریشن کی ضرورت نہیں تھی۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ حسین نواز کو سرٹیفکیٹس ملے تو انھوں نے جولائی دو ہزار چھ میں منسوخ کرکے دوبارہ جاری کروائے اور نئے سرٹیکفیٹس منروا کمپنی کے نام جاری ہوئے کیونکہ منروا سروسز ہی ان فلیٹس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلیں گے۔ قطری خاندان سے سیٹلمنٹس کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں معاملہ ایمانداری کا ہے۔ سیٹلمنٹ حمد بن جاثم سے ہوئی یا الثانی خاندان سے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ یہ سیٹلمنٹ حمد بن جاثم سے ہوئی تھی کیونکہ ان کے بڑے بھائی انیس سو اکانوے اور والد انیس سو ننانوے میں وفات پاگئے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ منروا کمپنی اور حسین نواز کے درمیان سروسز کا معاہدہ کہاں ہے۔ پہلے دن سے یہ دستاویز غائب ہے۔الزام ہے کہ منروا کمپنی سے رابطہ مریم نواز نے کیا اور مریم نواز ہی آف شور کمپنیوں کی بینیفشل مالک ہیں۔ گھبراتے کیوں ہیں، دستاویز دکھا دیں۔ منروا کمپنی کو خدمات کی ادائیگی کس کے اکائونٹ سے ہوتی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو ریکارڈ بھی دستیاب ہوا وہ عدالت میں پیش کریں گے۔ اپنے موکل کو منروا سروسز سے متعلق ریکارڈ دینے کا بھی کہوں گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ حمد بن جاثم سے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس حسین نواز کو کیسے ملے کیونکہ دوسرے قطری خط میں لکھا ہے کہ سرٹیفکیٹس ڈلیور کئے گئے۔ یہ نہیں لکھا کہ سرٹیفکیٹس حسین نواز کو دیئے ۔ اب تو ہمیں شریف خاندان کے پیش کردہ خطوط زبانی یاد ہوگئے ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ دبئی فیکٹری کے بارہ ملین درہم الثانی خاندان کے پاس پڑے رہے۔ چھبیس سال تک پیسہ بڑھتا رہا، کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ریکارڈ نہیں رکھا گیا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ریکارڈ رکھا گیا ہوگا مگر اس وقت موجود نہیں۔ حسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز نے کہا تھا کہ دادا نے لندن فلیٹس ان کی تعلیم کے لئے حاصل کئے تھے۔ دو طالبعلموں کے لئے چار فلیٹس کا بندوبست کیا گیا۔ حسین نواز کو یہ ساری باتیں بتانے والا کون ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ حسین نواز کو یہ باتیں حمد بن جاثم کے نمائندے ناصر خمید نے بتائیں۔ وہ زندہ ہے، ان کا بیان ریکارڈ کئے بغیر نتیجہ کیسے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ لندن میں تیسرا طالبعلم حمزہ شہباز بھی تھا۔ اس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آج آپ ایک اور طالبعلم سامنے لے آئے ہیں۔ پہلے صرف دو کا ذکر تھا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یقین سے نہیں کہہ رہے۔ ان کا خیال ہے کہ حمزہ شہباز بھی لندن میں زیر تعلیم رہے ہیں۔ لندن فلیٹیس کے سرٹیفکیٹس قطر میں تھے اور یہ کرنسی نوٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ دو ہزار چھ میں سرٹیفکیٹس کے ٹرانسفر کا ریکارڈ تو ہونا چاہئے۔ یہ تو کوئی پچاس سال پرانی بات نہیں۔ یہ ریکارڈ تو کمپیوٹر کا ایک بٹن دبانے سے بھی مل سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد دنیا بدل چکی اور کمپیوٹر کا دور آگیا ہے۔ مطمئن کریں کہ حسین نواز لندن فلیٹس کے مالک کب بنے۔ فلیٹس کی ملکیت کا کوئی ایشو نہیں ۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نائن الیون کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس کے بجائے رجسٹریشن کا دور شروع ہوا۔ حسین نواز جنوری دو ہزار چھ سے ان فلیٹس کے مالک ہیں اگر کسی کے پاس اس سے پہلے کی ملکیت کا ثبوت ہے تو وہ لے آئے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سامبا بینک کو مریم نواز کا نام سامنے لانے کی کیا ضرورت تھی۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ حسین نواز نے مریم نواز کو کمپنیوں کا دستخطی نمائندہ مقرر کیا تھا۔ اسی لئے سامبا بینک نے منروا کمپنی کو مریم نواز کے بارے میں بتایا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ موزیک فورنسیکا اور منروا کی خط و کتابت میں تو مریم نواز کو بینیفشل مالک بتایا گیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے اس حوالے سے موجود تمام دستاویز کو جعلی قرار دیا ۔جسٹس عظمت سعید نے سوال کیاکہ ریکارڈ پر ایسی کون سی دستاویز ہے جس سے حسین نواز بینی فیشل مالک ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی دستاویز ہے تو دکھا دیں۔ کیس کی سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی گئی ۔