اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

885,906FansLike
10,000FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

کھیل پر سیاست(طیبہ ضیاء)

لاہور قذافی سٹیڈیم میں اتوار کے روز ہونے والے کرکٹ میچ کو کھیل تک محدود رہنے دیا جائے خدارا اسے سیاسی اکھاڑا مت بنایا جائے۔ عمران خان ایک سیاسی جماعت کے لیڈر ہیں انہیں بغض و حسد اور عداوت کا رویہ زیب نہیں دیتا۔ تحریک انصاف کی جماعت میں بھی اس معاملہ میں تقسیم پائی جا تی ہے۔ کپتان کو کھیل کی حمایت کرنی چاہیے سیاست نہیں۔ ہمیں تحریک انصاف کی جانب سے گڑ بڑ کیے جانے کا خدشہ ہے کہ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے۔ پاکستان کو بھلے عراق شام افغانستان جس سے چاہیں تشبیہ دے دیں لیکن کھیل کو پر امن طریقے سے ہونے دیں۔ کھیل تفریح امن اور آزادی کی علامت ہے اسے انا کامسئلہ مت بنایا جائے۔ عوام نے بھی کھیل کے ٹکٹوں کو انا کامسئلہ بنا لیا ہے۔ عید قرباں پر قربانی کے جانور کی طرح پی ایس ایل کے مہنگے ٹکٹ خریدنا بھی لاہور یوں کی اناکا مسئلہ بن گیاہے۔ جس نے ٹکٹ خرید لیا اس کی واہ واہ باقی شرمسار پھر رہے ہیں۔ دکھاوا میں الا ما شا اللہ اس قوم کا کوئی ثانی نہیں۔ بھیڑ چال ہے یہ قوم۔ پی ایس ایل نے ہونے سے پہلے ہی میدان مار لیا۔ عوام کے جوش وجذبہ نے دنیا کو پیغام پہنچا دیا کہ جو چاہے کر لو ہم کھیلیں گے بھئی کھیلیں گے۔ حالانکہ خان صاحب نے اپنے واقف کاروں دوست بیلی سب کو میچ دیکھنے سے منع کر دیا ہے۔ بچپنا ہے یہ رویہ۔بچے ایسا کرتے ہیں کہ میں نہیں کھیلوں گا تو یار تم بھی کھیل دیکھنے مت جانا۔ انتظامیہ اس یقین کے ساتھ بندوبست کرے کہ خان صاحب کے لاڈلے منچلے گڑ بڑ کی کوشش کرسکتے ہیں تا کہ لیڈر کا دعوی سچ اور کھیل کا پیغام فلاپ ہو سکے۔ تمام سیاستدان جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو اوچھی حرکات کرتے ہیں لیکن خوشی ہوءکہ بجز خان پی ایس ایل پیغام زندہ دلان لاہور کے لئیے تمام اپوزیشن متحد ہے۔ قومی یکجہتی میں سب کو اتحاد شو کرنا چاہئے نہ کہ "شریکا ” کرنا چاہئے ؟خان نے درست کہا کہ تیس ہزار تماشائی اور ساٹھ ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات۔۔۔ تماشاءبھی پاکستانی ہیں اور سکیورٹی اہلکار بھی پاکستانی ہیں۔ اعتراض تو تب ہو جب بھارت سے ادھار لئے ہوں یا خان صاحب کے سسرال سے فوج حفاظت کے لیے بلائی جائے۔ ہمارا گھر ہے ہمارے اپنے تماشائی ہیں ہماری اپنی سکیورٹی ہے ، دشمنوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھیں تو مزہ بھی ، خان صاحب اپنے ہےں پھر غیروں جیسا رویہ کیوں؟ کرکٹ کو امن اور دوستی کا پیغام قرار دینے والے آج اسے سیاست کی بھینٹ چڑھا چکے جبکہ غیر سیاسی کھلاڑی کرکٹ سے امن کا پیغام پہنچانے میں مصروف ہےں۔ کرکٹ کے نامور پاکستانی کھلاڑی، شاہد خان آفریدی نے کہا ہے کہ کرکٹ کے شیدائی پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں میں بڑی تعداد میں بستے ہیں، اور ان کی یہ خواہش ہے کہ کرکٹ کے ذریعے وہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان تعلقات میں ایک خوش گوار تبدیلی لائیں۔’افغانستان صرف ہمسایہ ملک ہی نہیں بلکہ ان کا آبائی ملک ہے، چونکہ، انھوں نے بتایا کہ ”میری نانی کا تعلق افغانستان ہی سے تھا“۔ وہ افغانستان کے ساتھ خوش گوار تعلقات استوار کرنے کے متمنی ہیں۔انھوں نے بتایا کہ وہ اس دِن کا بے چینی سے انتظام کر رہے ہیں جب کابل سے دعوت ملے اور وہ افغانستان جاکر کرکٹ میچ کھیلیں۔انھوں نے کہا کہ ”کھیل امن کا پیغام دیتے ہیں۔۔۔۔افغانستان آفریدی کی نانی کا گھر ہے تو پاکستان عمران کی نانی کا گھر ہے۔ شاہد آفریدی چونکہ سیاست نہیں کھیلتا لہٰذاا نانی کے گھر بھی کھیلنے کو بے تاب ہے اور عمران خان چونکہ اب سیاست کھیلتا ہے لہٰذا نانی کے گھر میں بھی سیاست کھیلنے لگا ہے۔ لاہور دہشت گردی کے واقعات کے بعد ڈیپریشن کا شکار ہے۔ دشمن خوش ہیں۔ اس بے اعتمادی اور خوف کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لئے حکومت اور فوج نے عوام کو پی ایس ایل کا تحفہ دینے کا پلان بنایا۔اس کے لیے لاہور کا انتخاب کیا گیا۔ اس مثبت فیصلہ کی حوصلہ افزائی کی جائے نہ کہ عوام میں مزید ڈر اور ڈیپریشن کی فضا قائم کر دی جائے ؟

(بشکریہ: نوائے وقت)