اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

881,474FansLike
10,002FollowersFollow
568,800FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

سرگودھا میں 20افراد کے قتل کا معاملہ ،”پیر علی محمد گجر اپنے مرد اور عورت چیلوں کے ساتھ کیا کرتا تھا،ایسا ہولناک انکشاف سامنے آگیا کہ آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیںگے

سرگودھا(بیورو رپورٹ)علاقے کے ایک نوجوان اور دیگر بزرگوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شر ط پر پیر علی محمد گجر کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 2008ءمیں گاﺅں میں ایک ہولناک واقعہ پیش آیا۔ ادھیڑ عمر محمد رمضان بھٹی اور اس کی بیوی کو ذبح کردیا گیا۔اس واردات نے پورے علاقے میں کہرام مچادیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ”مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت پورے علاقے میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ مذکورہ میاں بیوی کے قتل میں علی محمد گجر کا ہاتھ ہے اور یہ قتل چلے کے دوران شیطانی طاقتیں حاصل کرنے کیلئے کئے گئے تھے۔ مقتول میاں بیوی کے عزیزوں نے اس وقت پولیس کو درخواست میں علی محمد گجر اور اس کے مریدوں پر شک ظاہر کیا تھا۔ چند دن کیس چلا، پولیس تفتیش کرتی رہی، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔
اس موقع پر موجود بزرگوں نے بتایا کہ چونکہ علاقے میں مشہور ہوچکا تھا کہ اس قتل میں علی محمد گجر اور اس کے چیلوں کا ہاتھ ہے، لہٰذا لوگ ان سے ڈرنا شروع ہوگئے اور علاقے میں ان کی دھاک بیٹھ گئی۔ اب علی محمد گجر اور اس کے چیلوں نے اپنا اصل رنگ دکھانا شروع کردیا۔ پہلے اگر وہ خرافات بند کمرے میں کرتے تھے، تو اب انہوں نے کھلم کھلا کرنا شروع کردی تھیں۔ علی محمد گجر شراب اور چرس کا رسیا تھا اور اپنے چیلوں کو بھی اس کی تلقین کرتا تھا۔ جب وہ علاقے میں آتا تھا تو اس کے چیلے برہنہ دھمال ڈالتے تھے۔ دھمال ڈالنے سے پہلے مرد اور عورتوں کو شراب اور چرس کا استعمال کرایا جاتا تھا اور اس دوران علی محمد گجر ان کو ڈنڈوں سے پیٹتا۔ عبدالوحید نے ڈنوں سے پٹائی کا عمل اپنے پیر علی محمد گجر ہی سے سیکھا تھا۔
اس کے بارے میں اس کے چیلے کہتے تھے کہ درحقیقت اس طرح ان کا پیر ان کے گناہ دھودیتا ہے۔ علاقے کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ 2009ءعلاقے کے نوجوان نے بڑی تعداد میں علی محمد گجر کے گرد اکٹھا ہونا شروع کردیا تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ وہ نوجوان جو پہلے مساجد میں نماز ادا کرلیا کرتے تھے، انہوں نے نمازیں ادا کرنا چھوڑدیں اور وہ اپنے والدین کے باغی بن چکے تھے۔ کئی نوجوانوں نے داڑھیاں بھی منڈادی تھیں۔ وہ کہتے کہ ان کے پیر نے بتایا ہے کہ کہ داڑھیاں رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں اور نماز پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے جبکہ یہ نوجوان نشے کے بھی عادی ہوچکے تھے۔ اکثر و بیشتر جب علی محمد گجر گاﺅں آیا ہوا ہوتا تھا تو رات کے وقت اس کے ڈیرے سے تیز میوزک اور چیخوں کی آوازیں آیا کرتیں، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ علی محمد گجر اپنے مریدوں کو برہنہ دھمال کے دوران ڈنڈوں سے پیٹتا ہے۔
علاقے کے بزرگوں کا کہنا تھا کہ 2010ءمیں گلزار نے گاﺅں میں عبدالوحید کو بھی متعارف کرانا شروع کردیا تھا۔ وہ لوگوں کو بتاتا تھا کہ یہ اس کا نائب پیر ہے۔ اس دوران علی محمد گجر تو مہینے میں ایک دو مرتبہ آتا، لیکن عبدالوحید مہینے میں کئی چکر لگاتا تھا۔ ایک مقامی بزرگ نے بتایا کہ 2012ءمیں عبدالوحید دو، تین ماہ تک علاقے میں رہا تھا۔ اس کا ٹھکانہ گلزار ہی کا گھر تھا۔ اس دوران سارے علاقے میں مشہور تھا کہ عبدالوحید کوئی چلہ کاٹ رہا ہے۔ ایک اور مقامی بزرگ نے بتایا کہ ”میں اس دوران سرگودھا میں شام کی ڈیوٹی کرتا تھا اور رات گئے گھر آتا تھا۔
کئی مرتبہ جب میں رات کو دیر سے آتا تو عبدالوحید کو قبرستان میں دیکھتا۔ اس دوران وہ قبروں کے بیچ میں بیٹھ کر عجیب و غریب زبان میں کچھ پڑھ رہا ہوتا تھا۔ مقامی بزرگوں کا کہنا تھا کہ کیونکہ عبدالوحید کے چیلوں میں کئی بااثر افراد شامل ہوچکے تھے، چنانچہ اس کے خلاف بات کرنے کی جرا¿ت کوئی نہیں کرتا تھا۔ اس کے ڈیرے کو آستانے کا نام دے دیا گیا تھا۔
(دو سال پہلے مرنے والے علی محمد گجر کی یہاں تدفین کے بعد اسے درگاہ کہا جانے لگا تھا۔) یہاں علی محمد گجر اور عبدالوحید شراب و کباب کی محفلیں سجاتے تھے۔ وہ دونوں دیسی مرغ اوربکرے کے علاوہ کچھ اور نہیں کھاتے تھے۔ ان کے چیلے دور دراز سے دیسی مرغ ڈھونڈ کر لاتےت ھے۔ اس کے تکے بنتے اور شراب و کباب کی محفلیں چلتیں۔ علاقے میں مشہور تھا کہ آستانے پر یہ برہنہ دھمال کراتے اور اپنے مریدوں کو ڈنڈے مارتے ہیں۔ اس کے بعد شراب اور چرس کا دور چلتا تھا۔“