اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

878,576FansLike
10,000FollowersFollow
568,600FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

پُرسکون اور خوشگوار زندگی گزارنے کے مفید نسخے

حاضر باشی کی صلاحیت حاصل ہونے کے بعد منفی خیالات اگرچہ پس منظر میں رہتے ہیں لیکن ہم پر اپنا بُرا اثر ڈالنے کی اہلیت کھو دیتے ہیں۔
ہم سب انسان ہیں اور اِس لیے مستقبل کے خدشات اور ماضی کے غم اکثر ہمیں جکڑ لیتے ہیں۔ ایسے میں اکثر یہ ہدایت ملتی ہے کہ ’سوچنے سے کچھ نہیں ملتا، ہنسی خوشی زندگی گزارو، لیکن اِس مشورے کے ساتھ کوئی مہربان یہ نہیں بتاتا کہ آخر اِن تمام خدشات اور دُکھوں کے انبار تلے ہوتے، ہنسی خوشی کیسے رہا جائے؟
اِس مختصر مضمون میں آپ کو ایک ایسے انوکھے طریقے کی آگاہی دیتے ہیں جو ہے تو صدیوں پرانا لیکن اب جدید سائنس نے نئے سرے سے اِس کی افادیت تسلیم کی ہے۔ اِسے انگریزی میں ’مائنڈ فل نیس‘ (Mindfulness) کہتے ہیں جس کا اردو میں ترجمہ حاضر باشی کیا جاسکتا ہے، یعنی اپنے موجودہ وقت، زمانہ حال، لمحہِ موجود میں دماغ کو حاضر رکھ کر زندگی گزارنا۔

انسانی ذہن میں خیالات کا سلسلہ کبھی نہیں رکتا۔ ایک خیال کے بعد دوسرا آتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں ماضی کی تلخ یادیں اور دُکھ ہمیں غم زدہ کرتی ہیں تو مستقبل کے خوف اور ممکنہ ناکامیوں کا خیال بھی پریشان کردیتا ہے۔ اگر غور کریں تو ماضی اور مستقبل دونوں زمانے صرف اور صرف ہمارے ذہن میں پائے جاتے ہیں، کیوںکہ ماضی تو گزر چکا اب صرف اُس کی یادیں ہمارے ذہن میں ہیں، اور مستقبل تو ابھی آیا نہیں صرف ہمارے اندازے اور خیالات اِس کے بارے میں تصورات کا روپ دھارتے ہیں۔ جس قدر ہمارے خیالات پریشان رہیں گے، اور ہماری مرضی کے بغیر ذہن میں آتے جاتے رہیں گے، اتنا زیادہ ہماری زندگی میں دکھ اور غم کا احساس ہوگا، جبکہ حال کے زمانہ میں زندہ رہنا خوشی اور فلاح کا باعث ہے۔
حاضر باشی نام ہے اپنی موجودہ حالت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے زمانہِ حال کے ہر ایک لمحے میں زندگی بسر کرنا، کیوںکہ اصل میں تو بس یہی وہ زمانہ ہے جو واقعی موجود ہے۔ پس سب سے اہم وقت اب (now) ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ سب کہنا تو بہت آسان ہے، مگر عملی طور پر ایسا کرنا کافی مشکل کام ہے۔ حاضر باش رہنے میں نہ صرف ہمارے دماغ، ذہن اور یادداشت کی ساخت حائل ہے، بلکہ خود ہمارے وجود کا بنیادی نقشہ اور جینز (genes) اِس سلسلے میں ہمارے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ بہرحال مسلسل مشق، توجہ اور قوت ارادی سے اِس صلاحیت کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔
انسانی دماغ (brain) وہ جسمانی عضو ہے، جو لاکھوں سال کے ارتقاء کا نتیجہ ہے جسے ہم کمپیوٹر کی زبان میں ہارڈوئیر (hardware) کہہ سکتے ہیں، جبکہ انسانی ذہن (mind) جو ہماری یادوں کا ذخیرہ ہوتا ہے اُسے ہم سوفٹ وئیر سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ذہن ہمارے سوچنے، سمجھنے، محسوس کرنے اور تصورات جیسی صلاحیتوں کا مرکز ہوتا ہے۔ یہاں اِس بات کا ذکر اہم ہے کہ ذہن و دماغ سب کے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ باقی اعضاء کی طرح یہ بھی کامل نہیں ہوتے اور اِن کے بھی نقائص ہوتے ہیں۔ سِگمنڈ فرائیڈ کا یہ قول کہ ’ہماری ساخت ہی ہماری تقدیر ہے‘، اِس لحاظ سے درست ہے کہ بالعموم کوئی بھی انسان اپنے دماغی اور جسمانی ساخت، ذہنی صلاحیت اور جینز کے نقشے سے آگے آسانی سے نہیں بڑھ سکتا۔
جینز، بقول رچرڈ ڈاکنز (Richard Dawkins) خود غرض سالمہ (Molecule) ہوتے ہیں جو کسی بھی قیمت پر اپنی بقا چاہتے ہیں۔ یہ جینز ہی ہیں جو ہم میں حسد، رشک، غصے اور غم جیسے جذبات یا زیادہ درست الفاظ میں دیگر انسانوں کے مقابلے میں اُن کا تناسب متعین کرتے ہیں۔ جینز کے پہلے سے متعین شدہ خواص کے ساتھ ساتھ ہم ماحول سے بھی مسلسل متاثر ہوتے ہیں اور اُس پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ یعنی ہم دنیا میں بنے بنائے پراڈکٹ کی طرح نہیں اترتے بلکہ ہماری شخصیت ہماری انفرادی تجربات و حوادث کی روشنی میں نمو پاتی ہے۔ یوں سادہ الفاظ میں ہماری زندگی ہمارے جسم اور دماغ کے امتیازات اور صلاحیتوں اور اُس کے ساتھ ساتھ ماحول سے تعامل کا مجموعہ ہوتا ہے۔ یہ ماحول جہاں ہمیں بہت سا عقل و ہنر سکھاتا ہے وہیں یہ بے شمار اُداس کردینے والی یادیں بھی ساتھ کردیتا ہے۔
ایسی ناخوشگوار یادوں کے بارے میں تو شاعر تنگ آکر یہ دعا یا بددعا تک کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ؎
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
لیکن سائنسی طور پر انسانی دماغ کے کچھ مخصوص حصوں کو نکال کر کچھ یادوں کو محو کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ ممکن نہیں کہ آپریشن سے پہلے ایک فہرست بنائی جائے اور اُس فہرست کے مطابق صرف ناخوشگوار یادوں کو ہی دماغ سے نکال باہر کیا جائے۔ پھر اس طرح یادوں کو کھرچ کر پھینکنا کبھی بھی ایک نارمل ذہن کو پروان نہیں دے سکتا۔ پس انسان کو اپنی ساری یادوں کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنی ہوتی ہے۔
ناخوشگوار یادیں بسااوقات منفی خیالات کو جنم دیتی ہیں اور پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ منفی خیالات صرف ایک مرتبہ آکر گزر نہیں جاتے بلکہ بار بار دماغ میں گھومتے رہتے ہیں اور ہم لاکھ کوشش کریں، دماغ سے نہیں نکلتے۔ اِس لیے یہ حقیقت یاد رکھیں کہ آپ کی زندگی میں تکلیف اور مشکلات کی وجہ کچھ بھی ہو، اولین چیز جو آپ کو اِس کا احساس دلاتی ہے وہ صرف اور صرف آپ کے خیالات ہیں۔ اِس لیے اگر منفی خیالات ذہن میں داخل ہوں تو آپ اُن سے مکمل باخبر ہونے چاہیئے اور اُن کو کُھلے دل سے تسلیم کرلیں۔ آپ کی یہ باخبری، ذہنی بیداری اور اُن حالات کو تسلیم کرنے کی طاقت آپ کی زندگی کو پُرسکون اور مسرور بناسکتی ہے اور یہی حاضر باشی کا بنیادی مقصد ہے۔
حاضر باش رہنے کے لیے آپ کو اِسی طرح مشق کی ضرورت ہوگی جیسے جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ورزش کی جاتی ہے۔ اِن مشقوں کو آپ جتنی توجہ دیں گے، اُتنی ہی جلد اور بہتر کامیابی آپ کو ملے گی۔
حاضر باشی کی چند مشقیں یہ ہیں:
بنیادی فلسفہ حاضر باشی کا یہ ہے کہ آپ جو بھی کام کر رہے ہیں اُس پر مکمل توجہ مرکوز کریں۔ آپ اپنے دن بھر کے کسی بھی کام کو اپنی حاضر باشی مشق کا حصہ بناسکتے ہیں۔ یہ روز مرہ کے معمولی کام بھی ہوسکتے ہیں، جیسے دانت صاف کرنا، کنگھی کرنا، کپڑوں پر استری کرنا یا سائیکل چلانا وغیرہ۔ بس واحد اصول یہ ہے کہ وہ کام کرتے ہوئے ذہن پوری طرح اُسی پر مرکوز رہے اور اُس دوران اگر ذہن ماضی یا مستقبل کی طرف بھٹکے تو نرمی سے اُسے موجودہ لمحہ میں واپس لائیں۔
ایک آزمودہ طریقہ اپنی سانس پر توجہ دینا ہے۔ دن یا رات کے کسی بھی وقت سکون سے سانس لیں، سینے میں روکیں اور خارج کردیں۔ بس مکمل توجہ سانس کی طرف رکھیں۔ شروع شروع میں یہی ہوگا کہ غیر محسوس طور پر ذہن بھٹک کر مختلف خیالات کی طرف جائے گا، لیکن اُس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں، دوبارہ توجہ سانس کی طرف مرکوز کریں اور مشق جاری رکھیں۔ اگر یہ مشق روزانہ صرف تین منٹ کے لیے بھی کی جائے تب بھی حاضر باشی کی مہارت کا آغاز ہوجاتا ہے۔
حاضر باشی کی مشق کے لیے مختلف لوگ مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے بعض لوگ سر سے لے کر پاؤں تک اپنے جسم کے ہر عضو پر ایک ایک کرکے توجہ کرتے ہیں اور یوں توجہ ایک نکتے پر رکھنے کی پانچ چھ منٹ کی مشق ہوجاتی ہے۔ اِس طرح پوری توجہ سے موسیقی سننا، گلوکار کی آواز اور موسیقی کے زیروبم پر مکمل توجہ رکھنا۔ چہل قدمی اِس طرح کرنا کہ خیالات میں کھونے کے بجائے اپنے اِرد گرد ہر منظر، خوشبو اور حتیٰ کہ ہوا کے لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کرنا پوری توجہ سے عبادت کرنا اور مراقبہ کرنا بھی اِس کی مختلف صورتیں ہیں۔
حاضر باشی سیکھنے کے لیے کوئی بھی مشق اختیار کریں، بس بنیادی مقصد سامنے رہنا چاہیئے، یعنی اپنے خیالات میں غرق رہنے اور اُن کو اپنے اوپر حاوی کرنے کے بجائے موجودہ لمحے میں جسمانی اور ذہنی لحاظ سے پوری طرح حاضر رہ کر زندگی گزاری جائے۔ یہ ایک ایسی قیمتی صلاحیت ہے جس کے حصول سے ہمیں منفی خیالات کی غلامی سے نجات مل جاتی ہے۔ جب تک یہ صلاحیت حاصل نہ ہو، ذہن میں آنے والے خیالات اپنی مرضی سے آتے جاتے ہیں اور ہم اُنہی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ اِس صلاحیت سے ہمارا ذہن ہماری مرضی سے کام کرنے لگتا ہے۔
حاضر باشی کی صلاحیت حاصل ہونے کے بعد منفی خیالات اگرچہ پس منظر میں رہتے ہیں لیکن ہم پر اپنا بُرا اثر ڈالنے کی اہلیت کھو دیتے ہیں۔ حاضر باشی سے جو ذہنی بیداری حاصل ہوتی ہے اُس سے انسان زندگی کو زیادہ بھرپور طریقے سے جیتا ہے۔ حاضر باشی سے ہم جان جاتے ہیں کہ صرف وہی دن طلوع ہوتا ہے جس دن ہم بیدار ہوتے ہیں۔
تحریر: نعیم خٹک
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)