سرگودھا کی موٹر سائیکل سوارفاطمہ ڈھابے والی

سرگودھا(آصف جوئیہ)بڑی سی چادر میں خود کو لپیٹ کر موٹرسائیکل کی سواری کرتی فاطمہ حبیب سرگودھا کے گاؤں چک 28 کی رہائشی ہیں۔ وہ اس علاقے کی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے نہ صرف بائیک چلانا سیکھی بلکہ باقاعدگی سے چلا بھی رہی ہیں۔فاطمہ نے آٹھ مہینے پہلے سرگودھا پولیس لائنز سےپنجاب حکومت کی سکیم وومن آن ویلز کے تحت یہ تربیت صرف اس لیے حاصل کی تھی تاکہ اپنے وہ والد کے ساتھ ان کے ڈھابے کے کام میں مدد کر سکیں۔وقت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ والد انتقال کر گئے اور چھ بہنوں اور تین سالہ بھائی کی ذمہ داری فاطمہ اور ان کے والد کی موٹر سائیکل نے اٹھا لی۔دھواں اور مٹی اڑاتی موٹر سائیکل پر سوار فاطمہ حبیب سرگودھا کی سڑکوں پر ایسے بےخوف سفر کرتی ہیں جیسے کوئی پروفیشنل بائیکر ہو۔ خودمختاری کے ساتھ اعتماد بھی ہے۔ وہ خود کو کسی سے کم نہیں سمجھتیں۔’میرا ماننا ہے کہ اگر ہمت ہو اور گھر والے بیٹیوں کا ساتھ دیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔‘انھوں نے بتایا کہ `مجھے ایک بار بائیک چلاتے ہوئے لڑکوں نے چھیڑا تھا، میں نے ان کی خوب پٹائی کی۔ اس کے بعد انھوں نے دوبارہ ایسا

کرنے کی ہمت نہیں کی۔ کچھ لوگ مجھے موٹر سائیکل چلاتے دیکھ کر ہنستے ہیں، انھیں ایسے نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں تو خوش ہونا چاہیے کہ ایک لڑکی اپنی ذمہ داری خود اٹھا رہی ہیں۔‘فاطمہ کا کہنا ہے کہ آج یہ ڈھابہ صرف ان کی موٹر سائیکل ٹریننگ کی وجہ سے ہی چل رہا ہے۔چک 28 کی مرکزی سڑک کے کنارے ایک کچی پکی چھت تلے فاطمہ اپنے والد کے ڈھابے پر بڑی سی کڑاہی میں پکوڑے اور سموسے تلتی ہیں۔ خوشبو سونگھتے ہوئے راستے سے گزرنے والے پردیسی اور علاقے کے لوگ وہاں ایک پل کو ٹہرتے ہیں تو کچھ نہ کچھ کھا کرانگلیاں چاٹتے ہوئے ہی لوٹتے ہیں۔فاطمہ کا کہنا ہے کہ آج یہ ڈھابہ صرف ان کی موٹر سائیکل ٹریننگ کی وجہ سے ہی چل رہا ہے۔’صبح موٹر سائیکل پر بہنوں کو سکول چھوڑ کر آتی ہوں، ڈھابے کا سامان اور مارکیٹ سے راشن لے کر آتی ہوں، پھر دوپہر کو آ کر ڈھابہ کھولتی ہوں، دوپہر کو بہنوں کو سکول سے لے کر ٹیوشن سینٹر چھوڑتی ہوں۔ میرا تو آدھا دن اسی موٹر سائیکل پر گزر جاتا ہے۔آخر بیٹا بن کر ابو کے حصے کے سب کام بھی تو کرنے ہیں۔‘خود کو مضبوط اور نڈر ظاہر کرنے والی فاطمہ کا سفر اتنا آسان نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔فاطمہ نے پولیس لائنز سے تربیت تو لی لیکن ٹریننگ سنٹر کی چاردیواری میں موٹر سائیکل چلانے اور گاؤں کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر سواری کرنے میں بہت فرق ہے۔ فاطمہ کو یہ احساس تب ہوا جب ان کا پہلا ایکسیڈنٹ ہوا۔’غلطی اس انسان کی تھیلیکن گری میں اور مجھے کافی چوٹیں بھی آئیں۔ اس سے میرا ڈر تو ختم ہو گیا لیکن ابو کی موٹرسائیکل خراب ہو گئی۔ اب میرے پاس اپنی موٹرسائیکل نہیں، ماموں سے انکی موٹر سائیکل مانگ کر ڈھابے اور گھر کا کام چلاتی ہوں۔خود کو مضبوط اور نڈر ظاہر کرنے والی فاطمہ کا سفر اتنا آسان نہیں جتنا دکھائی دیتا ہے۔فاطمہ کی خواہش ہے کہ کاش ایک دن وہ اتنے پیسے اکٹھے کر پائیں کہ خود موٹر سائیکل خرید سکیں۔یہ مسئلہ صرف فاطمہ کا نہیں بلکہ ہر اس لڑکی کا ہے جس نے پنجاب حکومت کی سکیم کے ذریعے موٹر سائیکل چلانا سیکھ تو لیتی ہے لیکن اپنا سواری نہ ہونے کے باعث چلا نہیں پاتیں۔سنہ 2015 سے اب تک وومن آن ویلز پروگرام کے تحت پنجاب کے پانچ اضلاع، لاہور، روالپنڈی، ملتان، فیصل آباد اور سرگودھا میں تین ہزار سے زائد خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی مفت تربیت دی گئی ہے لیکن تعداد کے برعکس اتنی خواتین سڑکیوں پر موٹر سائیکل لے کر نہیں آ پائیں۔اس حوالے سے وومن آن ویلز پروگرام کے سربراہ سلمان صوفی کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل سستی موٹر سائیکل سکیم میں ہے۔ٹریننگ لینے والی زیادہ تر خواتین مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں تو اپنی موٹر سائیکل خریدنے کی استطاعت نہیں۔ اسی لیے اب وومن آن ویلز پروگرام کے دوسرے فیز میں حکومت پنجاب صوبے کے پانچ اضلاع میں تین ہزار خواتین کو قرعہ اندازی کے ذریعے گلابی رنگ کی سبسیڈائزڈ موٹرسائیکلز دے رہی