اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

857,351FansLike
9,986FollowersFollow
564,500FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

افغانستان میں خونزیر جنگ کے بعد روسی افواج کی واپسی کی 30 سالہ یاد منائی۔

ماسکو: افغان جنگ میں حصہ لینے والے سینکڑوں سابق روسی فوجیوں نے افغانستان میں خونزیر جنگ کے بعد روسی افواج کی واپسی کی 30 سالہ یاد منائی۔فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اس سلسلے میں انہوں نے ایک بینڈ کے ہمراہ گہرے سبز رنگ کی وردیاں پہن کر ایک دہائی تک جاری رہنے والی جنگ کی یاد میں مارچ پاسٹ کیا کس کے دوران اور اس دوران ایک بینر بھی آویزاں کر رکھا تھا جس پر درج تھا کہ ’ہم نے مادرِ وطن کے احکامات کی تعمیل کی‘۔یاد رہےکہ کابل حکومت کی طالبان سے لڑائی میں روسی افواج حکومت افغانستان کی کمیونسٹ حکومت کی مدد کو پہنچی تھی اور اپنے 14 ہزار فوجی جوان گنوا بیٹھی، اس تنازع نے سوویت یونین کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔افغانستان میں جنگ کا حصہ بننے والے ایک سابق فوجی اینڈری گوسیو کا کہنا تھا کہ ’لوگ اس جنگ کے حوالے سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں، جیسا کہ یہ صرف ہماری جنگ تھی جبکہ عام عوام کی اس میں کوئی دلچسپی نہیں‘۔اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حتیٰ کہ میری اولادوں کو بھی دلچسپی نہیں‘، روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے دور میں اس جنگ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے حالیہ سالوں میں کچھ کوششیں ضرور کی گئیں جن میں مشرق وسطیٰ میں ماسکو کی عسکری خارجہ پالیسی اور مغرب کے ساتھ بڑھتی خلیج شامل ہے۔اس ضمن میں روسی رائے عامہ پر تحقیق کرنے والے ادارے ’ڈبلیو سی آئی او ایم‘ کے شائع کردہ جائزے کے مطابق 42 فیصد روسی شہریوں کا ماننا ہے کہ افغانستان میں مداخلت غلط فیصلہ تھا جبکہ 31 فیصد سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ضروری تھا۔سروے میں جنگ کی حمایت کرنے والے زیادہ افراد وہ ہیں جو اس طویل جنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئے۔اس موقع پر روسی وزارت دفاع کی جانب سے افغان جنگ کے حوالے سے متعدد ایسی دستاویزات بھی شائع کی گئیں جہیں ماضی میں خفیہ رکھا گیا تھا۔دستاویزات کے مطابق افغانستان میں مداخلت کا مقصد ’افغان فوج کو جنگ میں معانت فراہم کرنا تھا تا کہ وہ مخالفین سے لڑ سکیں۔تاہم حقیقی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہوگئی اور سوویت یونین کو حقیقی جنگ کا حصہ بننا پڑا۔واضح رہے کہ روس نے 15 فروری 1989 کو روس سے اپنا آخری فوجی دستہ واپس بلایا تھا، یہ فیصلہ میخائل گورباچوف نے کیا تھا جو اس وقت کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری تھے اور اسے آج بھی سراہا جاتا ہے۔اس حوالے سے دیے گئے ایک انٹرویو میں گورباچوف نے کہا تھا کہ ’فوجی انخلا کا فیصلہ‘ ان بہت سے فیصلوں کے بعد کیا گیا جس میں سوویت قیادت نے اسے بات سے اتفاق کیا تھا کہ ’افغان مسئلے کا عسکری حل ممکن نہیں‘۔دسمبر 1989 میں سوویت رہنماؤں نے ایک قراردار منظور کی جس میں کہا گیا تھا کہ افغانستان میں مداخلت کا فیصلہ ’سیاسی اور اخلاقی مذمت کے لائق ہے‘۔موجودہ پارلیمنٹ کے ایک رکن نے گزشتہ سال مذکورہ بالا قرار داد کو مسترد کرنے کی تجویز دی تھی۔افغانستان سے فوجی انخلا کے 30 سال مکمل ہونے پر صدر ولادی میر پیوٹن نے سابق فوجی ولادیمیر کوفتن کو روس کے سب سے بڑے اعزاز ’ہیروز آف رشیا‘ سے نوازا۔وہ اس وقت اسپیشل فورس کمانڈر تھے جنہوں نے1987 میں قندھار میں ایک ایسا اسٹنگر اینٹی کرافٹ میزائل پکڑا تھا جس پر امریکی دستاویزات درج تھیں، جو افغان جنگ میں امریکا کی مجاہدین کو معاونت فراہم کرنے کا پہلا دستاویزی ثبوت ثابت ہوا۔