اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

886,334FansLike
10,001FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

ایک سو پچاس سال قبل قائم ہونے والاسیالکوٹ ریلوے اسٹیشن زبوں حالی کا شکار

سیالکوٹ(سید انجم نقوی سے ) ایک سو پچاس سال قبل قائم ہونے والاسیالکوٹ ریلوے اسٹیشن زبوں حالی کا شکار ،قلی بیکار،کمرشل اراضی سرمایہ داروں نے معمولی داموں کنٹریکٹ پر حاصل کر لی،عملہ غائب،ملحقہ آبادی کا گندا پانی ریلوے حدود میں داخل ہونے سے سرونٹ کوارٹر اور ڈاک بنگلہ ،بھوت بنگلہ بن گئے،پارکنگ ایریا نیلامی کے بغیر ٹھیکدار کے سپرد،ریلوے ہسپتال کی عمارت اہل علاقہ نے کھیل کود کا میدان بنا لیا، نشیئوں کی آمجگاہ،تاش کے پتے تھرتھرانے اورچائے کے جام چلنے لگے، بیس ٹرینوں کی بجائے دو ٹرینوں کی آمدو رفت جاری، مال بردار گاڑیوں کی آمد معطل،پولیس ،آفیسران اور عملہ مفت کی تنخواہ کھانے لگا،تفصیلات کے مطابق انگریز حکومت نے اپنے دور اقتدار میں آمد ورفت کو آسان بنانے کیلئے ریلوے کا نظام تقریبا ایک سو پچاس سال قبل قائم کیا تو سیالکوٹ ریلوے اسٹیشن بھی تعمیر کیا گیاجہاں سے جموں ،نارووال،وزیر آباد ،لاہور ،چک امروکے لئے روزانہ ٹرینوں کی آمد ورفت ہوا کرتی تھی جبکہ کراچی سے مال بردار گاڑیاں کوئلہ اور خام مال سیالکوٹ تک پہنچاتی تھی قیام پاکستان کے بعد سیالکوٹ سے دوسرے شہروں کے لئے روانہ ہونے والی ٹرینوں کی تعداد بارہ سے زائد تھی لیکن آج کم ہو کر دوٹرینوں تک محدود ہو گئی ہے جس سے اپنے بچوں کی روٹی روزی کمانے والے قلی ریلوے اسٹیشن پر نظر آنے کی بجائے کوئی اور روزگار تلاش کر چکے ہیں اربوں روپے کی کمرشل اراضی مسلم لیگ ق کے زمانہ میں معمولی رقم کے عوض ایک سرمایہ دار کو لیز پر دے دی گئی ہے جو وہاں پر مارکیٹ تعمیر کر کے ماہانہ لاکھوں روپے کمارہا ہے کام نہ ہونے کی وجہ سے عملہ ریلوے اپنے دفاتر بند کر کے گھروں میں آرام کرنے کو ترجیح دیتاہے ریلوے اسٹیشن سیالکوٹ سے ملحقہ محلہ محمد پورہ کا گندا پانی ریلوے حدود میں داخل ہو کر درجنوں کوارٹروں اور ڈاک بنگلہ سے گزرتا ہوا سرکاری سوریج سسٹم میں داخل ہوتا ہے جس سے کوارٹر اور بنگلہ بھوت بنگلہ کی شکل اختیار کر گیا ہے اورایمرجنسی ٹریک بھی تباہ ہو گئے ہیں ،غفلت اور لاپرواہی کی ایک اور بڑی مثال ریلوے کی پارکنگ ایریا ہے جس کو بغیر ٹینڈر کے ٹھیکدار کے سپرد کر دیا گیا ہے اور وہاں پر شہری روزانہ سینکڑوں گاڑیان پارک کر کے اپنے کاروبار کی طرف چلے جاتے ہیں ،ریلوے اسٹیشن کا بڑا علاقہ نشئیوں کے قبضہ میں ہے جہاں پر وہ ہیروئن ،چرس اور نشہ آور ٹیکے،شربت اور گولیاں استعمال کر کے بلا تعطل آرام کرتے ہیں جبکہ مسافر خانہ بھی آوارہ اور بے سہارہ لوگوں کا مسکن بنا ہوا ہے،ریلوے اسٹیشن کے ٹریکس پر عام شہری صبح سے شام تک تاش کے پتے تھرتھراتے رہتے ہیں جبکہ بچے پلیٹ فارم اور خالی پلاٹ پر کرکٹ کھیل کر ریلوے کی بدحالی پر تماشا کرتے نطر آتے ہیں دوسری طرف ریلوے ہسپتال میں عرصہ دراز سے نہ تو کوئی ڈاکٹر ہے اور نہ ہی کوئی دوائی،ایک چوکیدار اور ڈسپنسر عقل کل بنے ہوئے ہیں ،کوئلہ ،فرنس آئل،خشک لکڑی کی ریلوے اسٹیشن پر آمد ایک خواب بن چکا ہے ،اس طرح سیالکوٹ ریلوے کا عملہ ،آفیسران اور ریلوے پولیس کے اہل کار صرف اور صرف اپنی تنخواہ باقاعدگی سے حاصل کرنے کے چکر میں اپنے اپنے کوارٹروں میں عیش و آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور کسی کو ریلوے اسٹشین کی حدود میں داخل ہونے سے روکنا تو درکنار وہ کچھ بھی کر جائے کسی کو کیا معلوم ،شہر اقبال کے باسیوں نے ریلوے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر ٹرینوں کی آمد ورفت نہیںہو سکتی تو مذکورہ اراضی کو نیلام کی بجائے فروخت کر کے رقم قومی خزانہ میں جمع کروائی جائے۔Sialkot Railway Station