اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

884,507FansLike
9,999FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

… اور معجزوں کا انتظار کریں

آصف علی زرداری محض ایک فرد ہیں۔ اتفاق سے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدربھی منتخب ہوگئے تھے۔ آئین پاکستان کے مطابق اس ملک کے صدر کو کئی معاملات میں مقدمے بازی کے ضمن میں استثناء حاصل ہوتا ہے۔ اسلام کی حقیقی تشریح ایسے استثناء کو اگرچہ تسلیم نہیں کرتی۔ اسی تشریح کی روشنی میں ہماری تاریخ کے ایک مسیحا اور مصلح بنے چیف جسٹس نے طے کیا کہ سوئٹزرلینڈ کی حکومت کو ہمارے ایک سابق وزیر اعظم چٹھی لکھیں۔ اس چٹھی کے ذریعے سوئس حکومت سے استدعا کی جائے کہ وہ اس ملک کے بینکوں میں رکھی ان رقوم کی تفصیلات فراہم کرے جو آصف علی زرداری سے منسوب ہیں۔یوسف رضا گیلانی نے آئینی استثناء کی آڑ لیتے ہوئے یہ چٹھی لکھنے سے انکار کردیا۔ عدالت نے ان کے انکار کو اپنی توہین قرار دیا۔ انہیں’’حیف ہے اس قوم پر‘‘ والا فیصلہ لکھتے ہوئے گھر بھیج دیا گیا۔ ان کے جانے کے بعد راجہ پرویز اشرف تشریف لائے۔ انہوں نے اس معاملے پر تھوڑی مزاحمت دکھانے کے بعد مذکورہ چٹھی بالآخر لکھ ہی ڈالی۔ اس چٹھی کے بعد کیا ہوا۔ ہم سب جانتے ہیں۔راجہ پرویز اشرف اور آصف علی زرداری، دونوں نے اپنے عہدوں کی آئینی مدت مکمل کی۔ اس کے بعد نئے انتخابات ہوئے۔ ان کے نتائج آجانے کے بعد اقتدار بہت عزت واحترام کے ساتھ نواز شریف کے حوالے کردیا گیا۔ بعدازاں ممنون حسین بھی بہت آسانی کے ساتھ ایوان صدر چلے گئے۔ مبینہ طورپر ’’قوم کی وہ دولت‘‘ جو آصف علی زرداری نے سوئس بینکوں میں چھپارکھی تھی ابھی تک ملکی خزانے میں لیکن واپس نہیں آسکی ہے۔آصف علی زرداری تو محض ایک فرد ہیں۔ پانامہ دستاویزات میں لیکن ابھی تک 500کے قریب پاکستانیوں کے نام منکشف ہوچکے ہیں۔ ان پاکستانیوں نے نظر بظاہر ’’ٹیکس چوری‘‘ یا ’’کرپشن‘‘ کے ذریے جمع کی ہوئی دولت کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے غیر ملکوں میں سرمایہ کاری کے لئے خرچ کیا۔ دعویٰ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ آف شور کمپنیوں میں چھپائی دولت کا اجتماعی حجم 50ارب ڈالر کے قریب ہوسکتا ہے۔ قوم سے ’’لوٹی‘‘ یا ’’چھپائی‘‘ اس خیر کن رقم کو واپس کیسے لایا جائے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب مجھے پانامہ-پانامہ کا شور مچاتا کوئی بھی اینکر، صحافی یا سیاسی رہ نما فراہم نہیں کرپارہا۔ساری توجہ ویسے بھی ہماری صرف اس نکتے تک محدود ہے کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم کے بچے آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ نواز شریف ہمیں جواب دیں کہ انہوں نے یہ کمپنیاں قائم کرنے کے لئے بھاری سرمایہ کیسے اور کہاں سے حاصل کیا تھا۔ نواز شریف کے ناقدین کی اکثریت کو کامل یقین ہے کہ وہ اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے پائیں گے۔ وہ اس ضمن میں خاموش رہے تو ان کی ’’اخلاقی حیثیت‘‘ کمزور اور مشکوک ہوتی جائے گی اور بالآخر وہ مرحلہ آن پہنچے گا جہاں وزیر اعظم کو استعفیٰ دے کر گھر نہیں جیل جانا ہوگا۔ وہ جیل گئے تو رہائی اسی صورت ممکن ہوگی اگر ان کی اولاد اپنی آف شور کمپنیوں کو بند کرے اور ان کے ذریعے لگائی ایک ایک پائی کو جمع کرکے قومی خزانے میں جمع کرائے۔ اگرچہ پنجابی محاورے والا ’’لگدا تے نئی پر شاید‘‘ ہو بھی جائے تو 500کے قریب ان بقیہ لوگوں کا کیا ہوگا جن کے نام بھی پانامہ لیکس میں آئے ہیں۔ کیا ان سب کوبھی نواز شریف کی طرح اس وقت تک جیل میں رکھا جائے گا جب تک خود سے منسوب 50ارب ڈالر وطن واپس نہیں لے آتے؟!ہدف مشکل نظر آتا ہے۔ نیت مگر نیک ہو اور ارادہ مصمم تو معجزے بھی برپا کئے جاسکتے ہیں۔ مجھے نہ جانے کیوں یقین ہوچلا ہے کہ پاکستان میں بالآخر وہ وقت آن پہنچا ہے جہاں اب معجزے برپا ہوتے چلے جائیں گے۔ کیوں اور کیسے جیسے سوالات صرف وہ لوگ اٹھایا کرتے ہیں جن کے دلوں میں شیطان وسوسے بھرا کرتا ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ عوام کی مستقل رہ نمائی کے لئے ہمارے آزاد، بے باک اور مستعد میڈیا میں گنتی کے چند لوگ ہی درباری اور لفافہ صحافی رہ گئے ہیں۔ اکثریت کا ایمان مستحکم ہے۔ وہ ڈٹ گئے تو اپوزیشن میں جمع ہوئے سیاست دان بھی پانامہ والے قصے کو بھولنے نہیں دیں گے۔ نواز شریف کو استعفیٰ دے کر جیل جانے پر مجبور کردیں گے۔ ان کے بعد جو نیا وزیر اعظم منتخب ہوگا اسے باقی 500لوگوں سے بھی ’’قوم کا لوٹا ہوا سرمایہ‘‘ واپس لانے کے لئے مؤثر قوانین بنانے ہوں گے۔ احتساب بیورو، ایف آئی اے اور ایف بی آر اپنی تمام قوت وصلاحیت ان قوانین کے اطلاق کے لئے مختص کردیں گے۔جب تک یہ سب نہیں ہوجاتا اس وقت تک کیا کرنا ہے۔ اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں۔ صرف ایک ہی معاملہ نظر میں رکھیے۔ پاکستان نے امریکہ سے درخواست کررکھی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف برپا ہوئی جنگ کو مؤثر تر بنانے کیلئے ہمیں آٹھ F-16طیارے فراہم کرے۔ امریکی حکومت نے اس فرمائش کا سوبسم اللہ کہہ کر خیر مقدم کیا ۔ ان طیاروں کی مجموعی قیمت 700ملین ڈالر ہے۔ ہمارے پاس مگر اس ضمن میں صرف کرنے کو محض 280ملین ڈالر موجود ہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے سے لیکن دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی جارہی ہے اسے امریکہ مختلف حوالوں سے Subsidizeکرتا ہے۔ امریکہ نے وعدہ کیا کہ بقیہ 420ملین ڈالر وہ فراہم کردے گا۔امریکی صدر اور حکومت کو، خواہ وہ کتنے ہی طاقت ور کیوں نہ ہوں، ایسی رقوم فراہم کرنے کے لئے اپنی منتخب پارلیمان سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ امریکی پارلیمان نے F-16کے حوالے سے یہ اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی جنگ لڑتے ہوئے ’’حقانی گروپ‘‘ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔ حالانکہ افغانستان میں جاری شورش کے چند اہم واقعات اس گروپ کی بدولت رونما ہوئے ہیں۔ پھر ایک ڈاکٹر شکیل آفریدی نام کا شخص بھی ہے۔ امریکی پارلیمان اسے اپنی قوم کا محسن گردانتی ہے کیونکہ اس نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک گھر میں موجودگی کے بارے میں ٹھوس شواہد اکٹھا کئے تھے۔ شکیل آفریدی مگر ہمارا ’’غدار‘‘ ہے اور اسی جرم کی بناء پر ان دنوں جیل میں ہے۔ آٹھ F-16طیاروں کی ترسیل کے بدلے اس کی رہائی کم از کم پہلا قدم قرار دی جارہی ہے۔ ظاہر ہے قومی حمیت ہمیں یہ قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دے گی۔ طیاروں کو لہذا فی الوقت بھول جائیں۔ نگاہ صرف پانامہ-پانامہ پر رکھیں اور معجزوں کا انتظار کریں۔پسِ نوشت:لندن کے میئر کا ذکر کرتے ہوئے میں نے جو کالم لکھا اس میں ایک فاش غلطی ہوگئی۔ لندن کا ایک سابقہ میئر -بورس جانسن- ان دنوں برطانیہ کا وزیر خزانہ نہیں ہے اگرچہ اپنے تئیں اب بھی بہت طاقت ور ہے اور ڈیوڈ کیمرون کا متبادل بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کا نام میرے ذہن میں موجود برطانوی وزیر خزانہ کے ساتھ گڈمڈ ہوگیا۔ اپنی اس خطا پر معافی کا طلب گار ہوں۔