اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

884,507FansLike
9,999FollowersFollow
569,000FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

اللہ کو قرض حسنہ (طیبہ ضیاءچیمہ)

لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ امریکہ کی آرام دہ زندگی اور فیملی چھوڑکر پاکستان کیسے رہ لیتی ہیں ؟ کیا بتائوں کہ پاکستان میں غربت کتنی بڑی لعنت ہے۔غریب کی اولاد تعلیم کے لئیے زکوات عطیات کی راہ تک رہی ہے۔ اور اللہ کا ارشاد مبارک جب پڑھتی ہوں کہ کون ہے جو مجھے قرض حسنہ دے اور میں کئی گنا بڑھا کر ادا کروں ۔۔۔ تو دل کرتا ہے زمین پھٹ جائے اوراس میں دفن ہو جائوں۔۔۔میرا مالک میرا پروردگار اپنے ہی خزانے سے عطا کر کے اپنے حقیر بندوں سے اپنے محتاج بندوں کے لئیے مانگ رہا ہے ؟’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے۔ تو اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر زیادہ دے۔(البقرہ:245)م حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم صحابہ کرام کی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ یہ آیت نازل ہوتی ہے (المزمل:20) ’’اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پائو گے ، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔‘‘ اسی مجلس میں موجود حضرت ابوالدحداحہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سے قرض مانگتے ہیں حالانکہ وہ ذات تو قرض سے بے نیاز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں اللہ ہی قرض مانگتے ہیں، اس کے بدلے میں وہ تمھیں جنت میں داخل کردیں گے۔‘‘ انھوں نے پھر عرض کیا: یارسول اللہ اگر میں اپنے پروردگار کو قرض دوں توکیا وہ مجھے اور میری بچی دحداحہ کو جنت میں داخل کرے گا؟آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘۔ تو انھوں نے کہا: لائیے اپنا دست ِ مبارک بڑھائیے۔ آپ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اسے پکڑ کر کہنے لگے کہ دو باغ میری ملکیت میں ہیں، ایک مدینے کے زیریں علاقے میں ہے اور دوسرا بالائی حصے میں۔ ان دو باغوں کے علاوہ اللہ کی قسم اور کوئی چیز میرے پاس نہیں ہے۔ میں یہ دونوں باغ اللہ کو قرض دیتا ہوں۔آپ نے فرمایا ’’ان میں سے ایک اللہ کی راہ میں دے دو اور دوسرا اپنی اور اپنے اہل و عیال کی گزر اوقات کے لیے رکھ لو۔‘‘ اس پر ابوالداحداحہ نے کہا: پھر اے اللہ کے رسول ان میں سے جو بہتر ہے وہ اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ آپ گواہ رہیں اس باغ میں چھ سوکھجور کے درخت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ حضرت ابوالدحداحہ مجلس سے اٹھے اور سیدھے باغ میں پہنچے جہاں ام دحداحہ اپنے بچوں کے ہمراہ کھجوروں کے درختوں میں پھر رہی تھیں۔
انھیں دیکھ کر کہا: میں نے یہ باغ اللہ کو بطور قرض خوش دلی سے دے دیا ہے۔ یہ سنتے ہی بیوی اپنے شوہر کی تحسین کرتے ہوئے بچوں کو لے کر باغ سے نکل گئی اور بچوں کے دامن و جیب میں جو کھجوریں تھیں اور جو ان کے منہ میں تھیں سب نکلوا کر وہیں ڈھیر کردیں۔اس آیت کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی ترغیب دلائی تو حضرت ابوعقیل انصاری نے ایک عجیب و غریب مثال قائم کی۔ خود اپنی زبانی وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پاتے ہی میں تڑپ اٹھا۔ اس وقت میرے پاس کچھ نہ تھا کہ خرچ کروں۔ آخر کام کی تلاش میں نکل پڑا تو اللہ تعالیٰ نے میری تمنا پوری فرمادی۔ مجھے ایک یہودی کے ہاں مزدوری مل گئی۔ ساری رات اپنی پیٹھ پر پانی لاد کر میں پانی لگاتا رہا۔صبح ہوئی تو اس یہودی نے دو صاع کھجوریں مزدوری میں دیں، ایک صاع نکال کر اپنے گھر والوں کے لیے لے گیا اور دوسرا صاع اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے دربار رسالت مآب میں حاضر کردیا۔ صحابہ کرام کے اس جذبے سے خوش ہوکر اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں ان کی تحسین فرمائی: ’’کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز ِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں، اسے اللہ کے ہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ہاں وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔‘‘قرآن مجید کی پانچ مختلف آیات میں اللہ تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دینے کی تاکید و ترغیب دی گئی ہے تاکہ ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کی جاسکیں، اور اس کو اللہ تعالیٰ نے خود کو قرض حسنہ دینے سے تعبیر کیا۔بہترین قرضہ حسنہ تعلیم و ہنر پر خرچ کرنا ہے۔ انسان کے ہاتھ میں ہنر ہو تو وہ بھوکا نہیں مرے گا۔ تعلیم کو زیور بھی کہا گیا ہے۔ ایسا زیور جس پر نہ زکوا ۃ ہے اور نہ چوری ہونے کا ڈر۔ لیکن جو ریاست تعلیم اور مساوی تعلیم عام کرنے میں ناکام رہے اس کے غریبوں کو خوشحال عوام بے آسرا نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ پھر اس ریاست کے خوشحال عوام پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خاندانوں اور علاقے کے غریب طلبہ کو ہنر مند بنائیں۔ تعلیمی اخراجات میں مدد کریں۔ سرکار مدینہ نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو کوئی طالب علم کبھی عالم کے دروازے پر علم سیکھنے کے لئے آمدورفت رکھتا ہے اس کے ہر قدم پر ایک ایک سال کی عبادت لکھ دی جاتی ہے اور ہر ہر قدم کے بدلے میں جنت میں اس کے لئے ایک ایک شہر آباد کردیا جاتا ہے اور جس زمین پر چلتا ہے وہ اس کے لئے استغفار کرتی ہے (۔ حضرت امام غزالی رحمتہ علیہ کا فرمان ہے ’’تعلیم کا مقصد صرف نوجوان نسل کی پیاس بجھانا نہیں بلکہ ساتھ ہی ان میں اخلاقی کردار اور اجتماعی زندگی کے اوصاف نکھارنے کا احساس دین اسلام نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیقی بنیاد ایک ہے۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی فضیلت انسانی کا ذکر آیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک ہیں۔ تقویٰ اور آخرت کی فلاح کا جو معیار مرد کے لئے مقرر کیا گیا ہے‘ وہی عورت کے لئے ہے۔ ہمارا دین عورت کو گھر کی چار دیواری میں اس طرح قید نہیں کرتا کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے دوسروں کی دست نگر رہے۔ نبی اکرم نے فرمایا:
بے شک تمہیں اپنے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے اپنی ضروریات کے حصول کے لئے‘‘۔ جس نے ایک بیٹی کو ہنر مند بنا دیا اس نے نیک خاندانوں کو ہنر سکھا دیا اور معاشرہ خاندانوں سے بنتا ہے۔پاکستان میں جہاں غریب کی بچی کا رشتہ ، شادی کے اخراجات ، جہیز جیسے مسائل موجود ہوں وہاں لڑکی کو تعلیم دلوانا نا ممکن ہوتا ہے جبکہ ڈگری یافتہ اور ملازمت پیشہ لڑکی کا رشتہ اور شادی میں سہولت ہو جاتی ہے۔ ڈگری یافتہ لڑکی کی تعلیم ہی اس کا حقیقی زیور ہوتا ہے۔سسرال مایئکہ کے افراد کا سہارا بن سکتی ہے۔ لیکن غریب آدمی کسی طرح اپنے لڑکے کو پڑھا سکے گا ، لڑکی کو پرایا مال سمجھ کر تعلیم دینے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے داخلے لڑکوں سے زیادہ ہیں لیکن تعلیمی وظائف محدود ہونے کی وجہ سے لڑکیاں تعلیم ادھوری چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ پیشہ ور ڈگری لے لیں تو مناسب رشتہ بھی ملنے کی امید ہوتی ہے۔ با شعور انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو تعلیم کی راہ میں خرچ کرے۔ کسی مستحق سٹوڈنٹ کو تعلیمی ڈگری مکمل کرانا بہترین قرضہ حسنہ ہے۔ تعلیمی وظیفہ لینے والا سٹوڈنٹ یہ احسان تمام زندگی یاد رکھتا ہے اور اپنا وقت فراموش نہیں کر سکتا کہ اسے کسی نیک دل نے تعلیم دلانے میں مدد کی۔ اس جذبہ کے تحت احسان مند سٹوڈنٹ اپنے جیسے مستحقین کی مدد ضرور کرتا ہے۔ یہ وہ صدقہ جاریہ ہے جو دیا سے دیا جلائے رکھتا ہے۔ پاکستان کے اندھیروں کو دور کرنا صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں ، ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ اپنے خاندانوں اور علاقے میں توجہ کرے کہ کوئی سٹوڈنٹ صرف فیس کے ہاتھوں تعلیم سے محروم تو نہیں۔ اس عظیم عبادت سے اللہ سبحان تعا لی کے قرض حسنہ کے ارشاد مبارک کی ترجمانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ سب کچھ چوری ہو سکتا ہے لیکن تعلیم چوری نہیں ہو سکتی۔ ہنر پر کوئی ڈاکہ نہیں ڈال سکتا۔
(بشکریہ: نوائے وقت)