اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

882,597FansLike
10,001FollowersFollow
568,900FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

بدلا ہے زمانہ تو بدلیے روش اپنی۔۔۔۔۔۔(طلوع، ارشاد احمد عارف)

یہ باسی کڑھی میں اُبال ہے یا اقتدار کے ایوانوں میں کسی نہ کسی سطح پر سنجیدہ سوچ بچار کا نتیجہ؟ مصطفی کمال‘ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بعد اب عمران خان نے بھی صدارتی نظام کو بہتر قرار دیا ہے۔ کیا اٹھہتر لاکھ ووٹ لینے والی تحریک انصاف کا سربراہ بھی موجودہ پارلیمانی نظام سے مایوس ہے؟
ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جس میں کچھ نیا کہنا اور کرنا تو درکنار‘ سوچنا بھی گناہ ہے۔ یہاں امریکہ کے گُن گانے والوں کی کثرت ہے امریکہ ڈرون حملے کرے‘ ہماری خودمختاری پامال یا ایٹمی پروگرام کو منجمد کرنے کے لیے دبائو ڈالے بعض لوگ تائید و حمایت کو جزو ایمان سمجھتے ہیں اور اختلاف کرنے والوں کو گنوار‘ پسماندہ اور انتہا پسند۔ امریکیوں کی طرح سوچنا‘ بولنا‘ اچھلنا‘ کودنا اور اوباما کی طرح اپنے آبائی مذہب سے اظہار برأت کرنا قابل فخر‘ حتیٰ کہ امریکی سفارت خانے نے ہم جنس پرستوں کی حوصلہ افزائی شروع کی تو یہ امریکہ نواز اس قبیح فعل کے حق میں بھی دلائل گھڑنے لگے مگر امریکہ کا صدارتی نظام؟کوئی بات کرے تو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ کار اور وفاق دشمن۔ گویا امریکہ محبوب‘ امریکی تہذیب و ثقافت مرغوب مگر صدارتی نظام مردود۔
دنیا کے کئی ممالک میں صدارتی نظام رائج ہے۔ یہی حال پارلیمانی نظام کا ہے برطانیہ کے علاوہ بھارت اور کئی دوسرے ممالک میں رائج اس نظام نے ترقی‘ استحکام اور قومی وحدت کو فروغ دیا اور عوام کو آپس میں جوڑ کر رکھا ۔کسی امریکی سے پوچھیں کہ صدارتی نظام سے آپ کو کیا ملا ؟تو وہ درجنوں فوائد گنوا دے گا۔ فرانسیسی مگر صدارتی اور پارلیمانی نظام کی پیوند کاری سے وضع کردہ نظام کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور برطانوی باشندوں کو پارلیمانی نظام سے بہتر کوئی سیاسی نظام نظر ہی نہیں آتا ‘ حالانکہ اس پارلیمانی نظام میں وہ ایک سپرپاور کے درجے سے گر کر چند جزائر پر مشتمل ریاست تک محدود ہوئے‘ ایک وقت تھا برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا اب طلوع ہوتے ہی غروب کا دھڑکا لگ جاتا ہے۔
پاکستان میں ترقی اور استحکام کا دورانیہ مختصر سہی مگر وہی ہے جب ملک میں ایک فوجی آمر نے صدارتی نظام کا تجربہ کیا ؛اگرچہ اسے مکمل صدارتی نظام کہنا مذاق ہے کہ ایک تو یہ موری ممبروں کے ووٹوں سے وجود میں آیا‘ دوسرے فیلڈ مارشل نے عوام کی آزادانہ رائے سے یہ تجربہ کرنے کے بجائے اپنی چھڑی سے تخلیق اور نافذ کیا‘ جبکہ پارلیمانی نظام بوجوہ الیکٹ ایبلز کی بلیک میلنگ‘ سیاستدانوں کی باہمی رسّہ کشی‘ وفاداریوں کی خریدوفروخت ‘ کرپشن اور عدم استحکام کے حوالے سے بدنام رہا اس کے باوجود وثوق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام واقعی ناکام ہو گیا اور صدارتی نظام کا تجربہ یقینی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ دونوں نظاموں کی خرابیوں اور خوبیوں سے قطع نظر ہمارے غیر متوازن سماجی رویوں‘ ناقص سیاسی تربیت‘ جہالت و پسماندگی‘ مقلدانہ بلکہ غلامانہ روش اور شخصیت پرستی کی پختہ عادت کی وجہ سے یہاں دنیا بھر میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے تجربات کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑتا ہے ۔
وزیراعظم ارکان اسمبلی اور اتحادی جماعتوں سے بلیک میل ہوتا ہے۔ تیزرفتاری سے اہم فیصلہ نہیں کر پاتا‘ مشاورت کے عمل میں سست روی در آتی ہے اور مختلف قسم کے دبائو اس کی قوت کار کو متاثر کرتے ہیں بجا! لیکن کیا صدارتی نظام میں صورتحال مختلف ہو گی‘ وہی زمین‘ وہی بیج اور وہی آب و ہوا۔نوازشریف‘ آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی‘ عمران خان‘ اسفندیار ولی اور مولانا فضل الرحمن کے مدمقابل مصطفی کمال‘ جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی میں سے کوئی اگر صدارتی اُمیدوار بنے بھی تو میاں نوازشریف‘ عمران خان اور بلاول بھٹو کے مقابلے میں عوامی اعتماد حاصل کر سکتا ہے؟ہرگز نہیں‘ سوچنا یہ چاہیے کہ جس نوازشریف اور عمران خان کو اب آمرانہ رجحانات پر مطعون کیا جاتا ہے جب وہ منتخب پارلیمنٹ‘ کابینہ اور اتحادیوں کے دبائو سے آزاد ہو گیا‘ من مانی پراُتر آیا تو بااختیار صدر کے طور پر کیا کُچھ نہیں کر گزرے گا۔ پارلیمانی نظام کے تمام تر تقاضوں اور چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے باوجود نوازشریف اور آصف علی زرداری کے کسی فیصلے پر پارلیمانی پارٹی اثرانداز ہو سکتی ہے نہ کابینہ اور نہ پارلیمنٹ۔ آصف علی زرداری نے سترہویں ترمیم کی تنسیخ اور آئین میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے لیے پارٹی سربراہ کے طور پر آمرانہ اختیارات کی شرط عائد کی اور اختلاف کرنے والے ارکان اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا اختیار مانگا تو کسی میں جرأت انکار نہ تھی۔ آصف علی زرداری کی دیکھا دیکھی میاں نوازشریف نے بھی حمایت کا معاوضہ وزارت عظمیٰ کی تیسری ٹرم کی صورت میں وصول کر لیا اور پرویز مشرف نے ارکان اسمبلی کے لیے بی اے کی تعلیمی شرط کی طرح دنیا کے دوسرے مہذب ممالک کی تقلید میں وزارت عظمیٰ اور وزارت اعلیٰ کے لیے دو ٹرم کی جو پابندی عائد کی تھی وہ ہوا میں اڑا دی۔
پاکستان میں مسئلہ نظام نہیں‘ ہمارے عوام اور سیاسی ‘ مذہبی اور سماجی قیادت کی ذہنیت کا ہے۔ جس ملک میں الیکٹرانک پارکنگ کا تجربہ چند ماہ میں ناکامی سے دو چار ہوا اور سیاسی جماعتوں میں شفاف انتخابات کو مذاق سمجھا جائے۔ صرف سیاسی جماعتوں ہی نہیں معاشرے میں بھی شخصیت پرستی اپنی بدترین صورت میں موجود ہے وہاں نظام صدارتی ہو یا پارلیمانی‘ کیا جوہری فرق واقع ہو سکتا ہے‘ یہ کان کو دائیں ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ سے پکڑنے کی مشق کے سوا کچھ نہیں۔ ووٹر کی تعلیم ضروری نہ تربیت لازم‘ اُمیدوار کے لیے بھی شرط اول جاگیر‘ سرمایہ اور ذات برادری جبکہ قیادت کا معیار بھی کسی سے مخفی نہیں۔ کسی کا صادق و امین ہونا میرٹ نہیں نقص ہے۔ ایسی صورت میں میاں نوازشریف کے نام کے ساتھ وزیراعظم کا لاحقہ لگے یا صدر کا اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی۔
اگر سیاسی جماعتیں جمہوری اصولوں پر استوار ہوں‘ افراد کی محتاج نہ خاندان کی میراث‘ رکنیت اور منصب کا کم از کم معیار بلند ہو اور پارٹی میں شمولیت کے بعد طے شدہ عرصہ تک بطور کارکن خدمات انجام دیئے بغیر عہدے اور عوامی نمائندگی کی ممانعت ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ موجودہ پارلیمانی نظام میں بھی بہتری نہ آئے اور مودی کی طرح کوئی چائے فروش اور صادق خان کی طرح کسی بس ڈرائیور کا بیٹا اعلیٰ منصب تک نہ پہنچ سکے۔ غلامانہ ذہنیت نے ہمارے دانشوروں کی زبان اور قلم کو تاویل کی راہ دکھائی کہ لوگ اگر بلاول بھٹو‘ حمزہ شہباز‘ مریم نواز اور مونس الٰہی کو قیادت کے قابل سمجھتے ہیں تو کسی کو اعتراض کرنے کا کیا حق حاصل ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس کو عوام نے قیادت کے منصب پر فائز کیا؟ کیا راہول گاندھی تعلیم‘ شکل و صورت‘ خاندانی وجاہت اور سیاسی تجربے میں ان سے کم ہے کہ من موہن سنگھ وزیراعظم بن گیا‘ شہزادے کو موقع نہ ملا۔ کانگریس نے راجیو گاندھی کے تجربے سے سیکھا کہ موروثی قیادت جماعتوں کو تباہ ‘ نظام کو کرپٹ اور ملک کو غیر مستحکم کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب نہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کو خاندانی اور موروثی نظام میں بدلنے کے سبب عوام کی اس سے دلچسپی برقرار رہی ہے نہ اس پر شب خون پڑے تو کوئی پروا کرتا ہے۔ عمران خان نے درست کہا کہ موجودہ حالات میں کوئی فوجی سربراہ اس بدنام زمانہ جمہوریت کی بساط لپیٹے اور احتساب کا ڈول ڈالے تو لوگ 1977ء اور 1999ء کی طرح مٹھائیاں بانٹیں گے ۔ یہی نہیں اگر بے رحم احتساب کے بعد صدارتی نظام کے ذریعے صاف ستھری‘ دیانتدارانہ‘ عوام دوست طرز حکمرانی کا آغاز ہو تو بھنگڑے بھی ڈالیں گے ۔گویا شرط اوّل ہمارے سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اقتصادی اور عدالتی نظام میں موجود خرابیوں کی اصلاح ہے۔ انتخابی امیدواروں کی مناسب چھان پھٹک‘ پولنگ سسٹم کی تطہیر‘ سیاسی جماعتوں میں جمہوری قدروں کا احیا اور جماعتی و حکومتی عہدوں کی بندربانٹ سے گریز کرنے کے علاوہ ہر سطح پر بے لاگ‘ بلاامتیاز احتساب جس کے بغیر موجودہ نظام چل سکتا ہے نہ اس کی جگہ کوئی دوسرا نظام۔ تجربے بہت ہو چکے اب نیا تجربہ نہیں‘ مواخذہ‘ احتساب کا موثر اہتمام‘ ایسا محاسبہ کہ گیہوںکے ساتھ گھن بھی پس جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ قوم نے 69 برس قربانی دی اب سیاسی اشرافیہ کو بھی اگر جان و مال کی قربانی دینی پڑے تو غنیمت ہے فصلیں پک جائیں تو کاٹنی ہی پڑتی ہیں،خواہ وہ سرسوں کی ہوں یا سروں کی۔ ؎
صبح و شام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل