اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

884,110FansLike
9,999FollowersFollow
568,900FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

کٹ؍ کمیشن (ڈاکٹر انصر فاروق)

محترم قارئین اس ملک کی عوام کی اُمید بہار اور امید سکون و قرار ۔ فرحت و راحت کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی اور نہ ہی یہ منافع خور اور دولت کے پجاری ہونے دیں گے۔ اور اس کی حوصلہ شکنی کرنے والے ادارے ان کے گرد شکنجہ کسنے کی بجائے عوام کے گرد شکنجہ کستے ہوئے نظر آتے ہیں اور کس رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سود لینا اور دینا حرام ہے مگر اس کا نام تبدیل کر کے کمیشن رکھ دیاگیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ رشوت لینا اور دینا حرام ہے۔ مگر اس کا نام تبدیل کر کے چائے پانی۔ روٹی ۔ خدمت وغیرہ رکھ دیا ہے۔ اس طرح سارے کام ایک کلاس فور سے لے کر اوپر صاحب تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کوئی اس کو پوچھنے والا نہیں ۔ میں آپ کو ایک چھوٹی سی بات سنتا ہوں جو میری آنکھوں کے سامنے ہوئی۔ اور بیان کرنے والے نے کی میں ایک دفعہ ایک سرکاری ادارے کا مہمان بنا ۔ میں جس ادارے میں کام کرتا ہوں ۔ اس کی وجہ سے یہ دھرنے کے دنوں کی بات ہے۔ حالانکہ میرا اس دھرنے اور دھرنے والوں سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ ہوا کچھ ایسے کہ میں نماز فجر ادا کرنے کے بعد اپنی والدہ محترمہ کی قبر پر فاتحہ خوانیکے لئے معمول کے مطابق گیا تھا۔ واپس آرہا تھا کہ میرے بڑے بھائی کا فون آیا کہ جلد گھر آئو آپ کے دوست آپ سے ملنے آئے ہیں۔ میں حیران سا ہوا کہ اتنی صبح صبح کون سا دوست آ گیا۔ کس کو آخر آئی ہوئی ہے۔ میں اسی سوچ میں آرہا تھا کہ میںنے دیکھاکہ دو آدمی سول کپڑوں میں جس راستہ سے میں واپس آرہا تھا وہاں بندوقیں ہاتھ میں لے کے بیٹھے تھے ۔ جیسے ہی میں قریب آیا تو وہ جوان یک دم کھڑے ہوگئے ۔ ایک مجھے شنا سا سا لگا۔ میں نے سلام کیا تو وہ بولا کہ ڈاکٹر صاحب ہم آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ میں بڑا حیران ہوا کہ یااللہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اور میں نے کون سا ایسا جرم کردیا کہ یہ لوگ بندوقوں کے ساتھ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ مین جب تھوڑا سا گھر کے قریب آیا تو میری ساری سوچوں کا اختتام ہوگیا۔ 10 سرکاری بندے دیکھ کر بہرحال مختصر یہ میں سرکاری مہمان بن گیا۔اب ہوا یہ کہ جس کمرے میں مجھے رکھ گیا وہ ایک صاحب کا کمرہ تھا۔ وہ صاحب پانچ وقت کے نمازی تھے۔ دو دن میں ساری کاروائی دیکھتا رہا ۔ جو کہ ملزمان کے خلاف ہوتی تھی۔ ان صاحب کے بقول ان کی تنخواہ 80000 روپے تھی۔ اور اتنی یا اس سے کم و پیش ان کی خدمت بھی ہوجاتی تھی۔ میں حیران تھا کہ یااللہ یہ کیسا بندہ ہے ۔ پانچ وقت نماز بھی ادا کرتا ہے۔ اور ایک دوبار تو ا سے نے جماعت کروانے کی سعادت بھی حاصل کی ۔اور میں اس کے مقتدیوں بھی شامل تھا۔ اور وہ بڑا مطمئن تھا۔ یہ سب کرنے کے بعد بھی ۔ دوستو میں جس موضوع کی طرف جارہا ہوں ۔اس میں عوام کا بھرکس نکالا جاتا ہے۔ اور عوام ہر بار اپنے ساتھ اچھا ہونے کی اُمید کے ساتھ اپنی پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ مہنگائی بڑھنے کے علاوہ کچھ بھی اچھا نہیں ہوتا۔ یہاں مجھے ایک میرے دوست ظہور ہاشمی کی ایک بات یاد آگئی کہ ہمارا نظام اس بات کی طرف تربیت کرتا ہے کہ تعلیم صرف اچھی نوکری حاصل کرنے کے لئے حاصل کی جاتی ہے۔ نہ کہ ایک اچھا انسان ایک اچھا اور سچا مسلمان بننے کے لئے۔ جی عوام جو مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے ۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ اصل میں مہنگائی ہے ہی نہیں۔ بس اپنے اپنے منافع ۔ کمیشن اور کٹ کے چکر میں عوام کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے۔ اس ملک کا المیہ ہے کہ اگر چیر سستی کرنی ہوتو اس کے لئے ہزار اجلاس بلائے جاتے ہیں۔ اور جب اس کو مہنگا کرنا ہوتو ایک منٹ میں کردی جاتی کیاس کے خلاف آواز نہیں اُٹھتا نہ ہی کوئی اس میں رکاوٹ بنتا ہے۔ منافع جو مل رہا ہوتا ہے۔ ایک چیز اگر دس روپے کی بنتی ہے تو اس پر دس روپے کمیشن رکھا جاتا ہے۔ اس کو مارکیٹ میں لانے کے لئے اور پھر 10 روپے کمیشن دکاندار کا رکھا جاتا ہے۔ اس طرح وہ جو چیز زیادہ سے زیادہ15 ، 20روپے میں عوام کو ملنی چائیے وہ 30 روپے میں مل رہی ہے۔ ڈاکٹر حضرات آج کل ایک مریض کو اگر بخار ۔ ہے سر درد ہے۔ کھانسی ہے۔ تو اس کو کوئی دس ٹیسٹ لکھ کر دیں گے۔ جن کا اس کی بیماری سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوگا۔صرف اپنے کٹ ؍ کمیشن کے لئے۔اور ان ٹیسٹوں کی جو فیس لیبارٹری والا لے گا۔ اس میں سے 50 فیصد ڈاکٹر صاحب کو ملیں گے۔ اس طرح اگر کوئی ڈاکٹر آپ کو کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس ریفر کرتا ہے تو وہ ڈاکٹر جو فیس لے گا۔ اس میں سے بھی 40,30 فیصد بھیجنے والے ڈاکٹر صاحب کو ملیں گے۔ آگے ڈاکٹر صاحب جو ادویات آپ کو میڈیکل سٹور سے لینے کے لئے لکھ کر دیں گے۔ اس میں سے بھی ڈاکٹر صاحب کٹ یعنی کمیشن ملے گا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ آج کل نارمل ڈلیوری ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ 100 میں سے 80 فیصد بچے آپریشن کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ نارمل ڈلیوری میں ڈاکٹر صاحب کو کٹ کم ملتا ہے اور آپریشن میں کٹ زیادہ ملتا ہے۔ یہی نہیں آج کل اس کمیشن کو زیادہ بڑھانے کے لئے بڑھا ہوا اور لٹکا ہوا پیٹ کم کروانے کے لئے بھی ڈاکٹر ز میداں کٹ ؍ کمیشن میں زور لگا رہے ہیں۔ کیونکہ اس میں بھی کمیشن ہے۔ ایک چھوٹی سے مثال اور حقیقت بھی آپ کے سامنے رکھتا چلوں کہ ایک طاقت کا انجکشن جس کا نام فیٹی کوبال ہے۔ اس کی قیمت ڈاکٹرز 50 روپے وصول کرتے ہیں۔ جبکہ وہ دو نمبر انجکشن میڈیکل سٹور سے ڈاکٹر ز کو 10 روپے میں ملتا ہے۔ اسطرح آجکل شوگر کے مریضوں کو طاقت کے لئے ایک سیرپ دیا جا تا ہے ۔ جس کا نام غالباً فیروجن ہے۔ اس کی قیمت ہے۔ 250 روپے جو مریض سے لی جاتی ہے۔ مگر وہ ملتا 100 روپے میں ہے۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا۔ کہ جب آپ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب آپ کو ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔ جو کہ اس ہسپتال میں موجود میڈیکل سٹور سے آپ لیتے ہیں۔ اگر خدا نخواستہ کسی وجہ سے آپ ادویات اپنے قریبی میڈیکل سٹور سے لینے جائیں گے۔ تو وہ آپ کو نہیں ملیں گی۔ اور اگر وہ میڈیکل سٹور والا مخلص ہوا۔تو آپ کو ایک بات کہے گا کہ جناب یہ آپ کو ہسپتال کے علاوہ کہیں سے نہیں ملیں گی۔ نہ کھجل خوار ہوں۔ کیونکہ یہ سب کٹ کا چکر ہوتا ہے۔ کمپنی ڈاکٹر صاحب کو ہسپتال والے کو کٹ دیتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہ معاملہ ہو چکا ہے۔ اس سارے کٹ کے چکر میں عوام کے جسم اور جیبیں کاٹی جارہی ہیں۔ مہنگائی ختم ہونے کا نام ہی لیتی۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس عوام کا خون اس طرح چوس رہی ہیں جیسے جانوروں کے جسم سے جونک اور چچڑ خون چوستے ہیں۔ حکمران خاموش ہیں اور خوش ہیں۔ کہ ہماری تجوریاں کٹ سے بھر رہی ہیں۔ عوام کو مرنے دو یہ ہیں ہی اس قابل لوڈشیڈنگ اس ملک سے کبھی ختم نہیں کی جائے گی۔ کیونکہ پھر ان کے جنریٹر نہیں بکیں گے۔ اور اور نہ سلور پینل۔ اور اگر ایسا ہو گیا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہوگئی۔ تو ان کو کٹ ؍ کمیشن نہیں ملے گا۔ اور ساتھ ہی ساتھ پٹرول کم استعمال ہوگا۔ اس کی سیل بڑھانے کے لئے بھی پٹرول سستا کرنے پڑھے گا۔ اگر ایسا ہوا تو ان کا کٹ ؍ کمیشن بند ہوجائے گا۔ پی آئی اے کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوگی۔ کیونکہ کہ اگر ایسا ہواگیا تو موجودہ حکومت کے وزیر کی کمپنی بند ہوجائے گی۔ اور حکومت کو کٹ ؍ کمیشن نہیں ملے گے۔ اسی طرح پاکستان سٹیل مل کبھی پیروں پر کھڑی نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو بھارت میں موجود ان حکمرانوں کی ملیں بند ہو جائیں گے۔ اور ان کا کٹ ؍ کمیشن بند ہو جائے گا۔بس کیا کیا بتائوں سب کٹ ؍کمیشن کا چکر ہے دوستو۔ اس معاشرے میںجہاں کٹ والے ہیں۔ وہاں اللہ کے نیک لوگ بھی ہیں۔ جو حقیقت میں مسیحائی کرتے ہیں۔ لوگوں کی حیثیت کے مطابق اس کو ریلیف بھی دیتے ہیں۔ مگر وہ بہت تھوڑے ہیں۔ جو اللہ کی رضا کی خاطر اس کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں ۔ ہماری گورنمنٹ نے سرکاری ہسپتال قائم کر رکھے ہیں، اور ان میں ماہر ڈاکٹرز بھی تعینات کر رکھے ہیں ۔ مگر ادوایات کے حوالے سے وہ بھی باہر مختلف سٹورز سے خریدنی پڑتی ہیں۔ وہ بھی کٹ کے ساتھ ہی چل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ اس عوام کی حالت پر رحم کرے۔ مگر ا سکے لئے قوم کو بھی کچھ کرنا پڑے گا تاکہ اس کو کٹ نہ لگیں اور نہ ہی کوئی ان کو کمیشن کے چکر میں سواریاں سمجھ کر بیچ دے۔ ایسے ہی جیسے لاہور سے لوکل بس روالپنڈی کے لئے روانہ ہوتی ہے۔ اور وہ مرید کے پہنچ کر لاہور کی سواریاں اگلی بس کو بیچ دکر اپنا کٹ پورا کر لیتی ہے۔ اور مرید کے والے گوجرانوالہ پہنچ کر اپنا کٹ پورا کر لیتے ہیں۔ گوجرانوالہ سے چلنے والا گجرات پہنچ کر اپنا کٹ پورا کرلیتاہے۔ اور گجرات سے چلنے والی بس جہلم یا دینہ پہنچ کراپنا کٹ پورا کر لیتی ہے۔ اور دینہ سے چلنے والا گوجر خان پہنچ کر ۔ گوجر خان والا مندرہ یاروات میں اپنا کٹ لگاتا ہے۔ اور آخر اس مسافر کا سفر خدا خدا کر کے پورا ہو ہی جاتا ہے ۔ مگر اپنی منزل پر پہنچنے تک اس کو اتنے کٹ لگ چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے حواس ہی کھو بیٹھتا ہے۔ مگر اس قوم کے لئے ان کٹو ں سے بچنے کے لئے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال کا یہ شعر ہی بہت ہے اگر یہ عوام سمجھ جائے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا(علامہ اقبالؒ)