اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

880,937FansLike
10,001FollowersFollow
568,800FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

لاہور دھماکہ، ڈاکٹر طاہر القادری اور اللہ کا ایک بندہ

دوستومیں آپ سب کا مشکور ہوں ۔ جو میرے کالم پڑھتے ہیں ۔اور پھر مجھے فون کر کے میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ آج آپ سے گذارش ہے کہ میرا یہ کالم ضرور پڑھئے گا۔ آج ڈاکٹر طاہر القادری کی پیدائش کا دن ہے۔ اور پوری دنیا میں ان کے پیرو کار ان کے وابستگان ان کی پیدائش کے دن کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کریں گے۔ ان کی صحت اور لمبی عمر کے لئے دُعائیں کی جائیں گی۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی دینی خدمات اپنی جگہ ہیں۔ ان کے فلاحی کام اپنی جگہ ہیں۔ انھوں نے جس تحریک کا آغاز کیا تھا۔وہ ایک دینی تحریک تھی جب بھی کوئی بندہ اپنی کسی تحریک کا آغاز کرتا ہے۔ یا کوئی پارٹی بناتا ہے تو وہ اس کے لئے کچھ قاعدے کچھ اصول واضح کرتا ہے۔جس کو لے کر وہ چلتا ہے۔ اور اس سفر میں وہ کافی نشیب وفراز بھی دیکھتا ہے۔ جو لوگ شروع میں ساتھ چلنے کا عہد کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ اور کچھ ہرمصیبت میں، دکھ سکھ ، آندھی طوفان میں ساتھ نبھاتے ہیں۔ بس اگر ایک غیر جانبدارانہ نظر دوڑائی جائے ۔ تو ڈاکٹر طاہر القادری نے جو مشن شروع کیا تھا۔ وہ اس وقت کم و بیش دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اندرون ملک بشمول آزادکشمیر ان کے تعلیمی نیٹ ورک کے 1000 سے زائد ادارے ہیں۔ جن میں سکولز ۔ کالجز اور مرکزی سطح پر ایک چارٹرڈ یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ ان تعلیمی اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں طالب علم زیور تعلیم سے آراستہ ہورہے ہیں۔ اور سینکڑوں کی تعداد میں یتیم ۔ نادار اور مستحق بچوں کو فری تعلیم د ی جارہی ہے۔ اور ان اداروں میں سینکڑوں کی تعداد میں بے روزگار اپنا روزگار حاصل کر کے اپنے خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں۔اور ان اداروں میں کام کرنے والوں میں منھاج القرآن سے وابستہ لوگ بھی ہیں۔ اور وہ لوگ بھی کام کر رہے ہیں۔ جن کی کسی بھی قسم کی منھاج القرآن سے وابستگی نہیں ہے۔ اور جو بچے منھاج القرآن کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سے بھی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے۔ جن کا ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور یہی اس تحریک کی کامیابی بھی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے دونوں صاحبزادے حسن محی الدین قادری اور حسین محی الدین قادری دونوں پی ایچ ڈی ہیں۔ اور اپنے والد کے مشن میں ان کے شانہ بشانہ خد مات سر انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی کُتب اور سی ڈیز کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ اور ان کو یہ شرف بھی حاصل ہے۔ کہ دہشت گردی کے خلاف ان کا فتوی کتابی صورت600 صفحات میں موجود ہے۔ اور یہ عالم اسلام کے علماء اکرام کی طرف سے پہلا تحریری اور کتابی شکل میں فتوی دیا گیا۔ اس فتوی کے نتیجہ میں ان کو دہشت گردوں نے ہٹ لسٹ پر رکھا لیا ۔ دہشت گردی کے حوالے سے انھوں نے امن نصاب بنایا جس کی کُتب ہر قاری کے لئے الگ الگ تحریر کی۔ وکلا ء کے لئے الگ ۔ علماء کے لئے الگ۔ طالب علموں کے لئے الگ۔ عام شہریوں کے لئے الگ ۔ اساتذہ کے لئے الگ ۔ صحافیوں کے لئے الگ۔ تاکہ ہر ایک کو اس کی ذہنی اور تعلیمی لیول کے مطابق نہ صرف سمجھ آسکے بلکہ وہ آگے معاشرے میں موجود لوگوں کو بھی سمجھ سکے ۔ اسطرح انھوں نے اس عوام کو پہلی بار آئین کی روح سے رو شناس کروایا ۔ نہ صرف عوام کوبلکہ سیاسی جماعتوں کو بھی بتایا کہ آئین پاکستان کیا ہے۔ اور خاص طور پر آئین کی آرٹیکل 63,62 کے بارے میںعوام کو شعور دیا۔ ان نے دھرنے میں کیا کھویا ۔ کیا پایا یہ ایک الگ بحث اور موضوع ہے۔ مگر اس دھرنے نے عوام کو آئین کے آرٹیکل 63,62 کے بارے میں شعور اجاگر کر دیا۔
دوستو ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں۔ جن کا کوئی اعتراف کرتا ہے اور کوئی نہیں کرتا ۔ بس ایک بات کہ کر آگے چلوں گا کہ ہمارے اس معاشرے میں زندوں کی قدر نہیں کی جاتی اور مرنے کے بعد ان کی قبروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے سیمینارز منعقد کئے جاتے ہیں۔ ان کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے۔ جب کہ وہ جب تک زندہ رہے ۔ اس کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی ۔دور کی بات نہیں عبدالستار ایدھی مرحوم کی مثال ہم سب کے سامنے ہے۔
دوستو جس دن لاہور میں دھماکہ ہوا میں ایک میڈیکل سٹوروالے کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں پر دو چار لوگ بڑی گرما گرم بحث کر رہے تھے۔ جس میں حکومت کو کوسنے والے بھی تھے۔ حکومت کی تعریف کرنے والے بھی تھے۔ فوج کی تعریف کرنے والے بھی تھے۔ اور فوج سے مطالبہ کرنیوالے بھی تھے۔ کہ ان دہشت گردوں کو اور ان کے سہولت کارو ں پر کیوں نہیں پکڑا جاتا۔ وغیرہ وغیرہ ایک بولا کہ یہ دھماکہ حکومت نے کروایا ہے۔ تاکہ میڈیکل سٹوروں والا اپنا احتجاج ختم کردیں۔ دوسرا بولا کہ جو بھی ہے۔ ان کو ضیاء الحق کی طرح خون کا حساب دینا ہوگا۔ جس طرح اس نے بھٹو کو پھانسی لگانے کے بعد اس کی بیٹی اور بیوی کو اس کا چہرہ نہیں دیکھنے دیا تھا۔ تو اللہ نے اس کا چہرہ بھی کسی کو نہیں دیکھنے دیا تھا۔اور ایک نے کہا کہ اگر رانا ثناء اللہ کو فوج گرفتار کر کے پھینٹی لگائے تو سب پتہ چل جائے گا۔ کہ دھماکہ کس نے کروایا ۔اور کیوں کروایا۔ ان میں سے ایک بولا کہ عمران خان کی حکومت ہوتی تو یہ کام نہ ہوتا۔ اور ایک نے اپنے دل بھڑاس اس طرح نکالی کہ یہ سب کچھ ڈاکٹر طاہر القادری کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ نہ وہ دھرنا دیتا اور نہ یہ کام ہوتا۔ ایک بزرگ وہاں یہ سب باتیں سن رہے تھے۔ وہ بولاکہ بیٹا بغیر کسی ثبوت کے کسی پر بہتان نہیں لگاتے۔ اور پھر دھرنے کا اس سے کیا تعلق یہ دہشت گردی تو دھرنے سے پہلے بھی ہورہی تھے۔ اس میں طاہرالقادری کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ اس کے اپنے 14 لوگ پولیس نے شہید کر دیئے تھے۔ اور آج تک اس کو انصاف نہیں مل رہا۔ اورایک بات اور یاد رکھو کہ طاہر القادری نے جو جو باتیں کی تھیں ۔ وہ ساری سچ ثابت ہورہی ہیں۔ اور ہوئیں بھی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری آنکھوں پر منافقت کی پٹی بندھی ہوئی ہے ۔ جسے ہم کھولنا ہی نہیں چاہتے ۔ اگر یہ منافقت کی پٹی کھل جائے تو اس ملک سے دہشت گردی ۔ رشوت خوری ۔ لاقانونیت سب ختم ہو جائے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی سوجھ بوجھ ہی نہیں ۔ ہمیں اپنا عیب نظر نہیں آتا ۔ ہمیں اپنی غلطی نظر نہیں آتی۔ ہم ہمیشہ دوسروں پر تنقید کرتے ہیں۔ اور اپنی غلطی کو تسلم نہیں کرتے ۔ ہم اپنا جھوٹ تسلیم نہیں کرتے۔ اور دوسرے کا سچ ۔ جو کہ حقیقت میں سچ ہوتا ہے۔ اس کو ہم جھوٹا کہتے ہیں۔ ہم چور کو ایماندا ر اور ایماندار کو چور بناتے ہیں۔ حالانکہ ہمیں پتہ بھی ہوتا ہے کہ یہ چور اور اور ہمارا مخالف مومن ہے۔ مگر ہمیں میں نہ مانوں کی جو لت پڑ چکی ہے ۔ وہ کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لے گی۔ جس دن وہ ختم ہو گئی۔ ہم کسی پر الزام نہیں لگائیںگے۔ طاہر القادری ایک سچا اور کھرا بندہ ہے۔ بس اس کی غلطی یہ ہے کہ وہ اس عوام کی تقدیر سنوارنے کی بات کرتا ہے۔ چور کو سزا اور مومن کو جزا دینے کی بات کرتا ہے۔وہ عوام کو آئین کے مطابق سہولتیں اور حقوق دینے کی بات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ حکومت قوم کی امانت ہے اور اس امانت میں خیانت نہ کرو۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ اور عوا م حکمرانوں کو منتخب کر کے جو ذامہ داری ان کے سپر دکرتی ہے۔ وہ اس امانت میں خیانت نہ کریں۔ وہ مسلمانوں کو آپس میں بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ وہ غیر ممالک میں جا کر ان کو بتاتا ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے۔ اور اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیںہے۔ دہشت گرداور دہشت گردی کاا سلام سے کوئی تعلق نہیں وہ کہتا ہے کہ حضور ؐ اور صحابہ کے زمانے میں ایک ہی مسجد ہوتی تھی ۔سب اسی میں نماز ادا کرتے تھے۔ آج سنی کی اپنی ۔ دیوبندی کی اپنی ۔ اہلحدیث کی اپنی ۔ اہل تشیع کی اپنی اپنی مسجد اور کوئی دوسرے کو اپنی مسجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ اور اگر کوئی بھول کر آجائے ۔ تو اسکو حقار ت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دین کے نام پراپنی دکانداری نہ چمکائو۔ اور معصوم بچوںکے ذہنوں میں یہ بات نہ بٹھائو کہ دوسرے فرقے کے مسلمانوں کو قتل کرنے سے جنت ملے گی۔ ایسی باتیں کر کے اسلام کے تشخص کو مسخ نہ کرو۔ اولیاء اللہ کے مزارات پر بم دھماکے کروا کے اس کو جہاد کا نام نہ دو ۔ بس یہ اس کی غلطیاںاور اس کا قصور ہے۔ اور جس دن یہ باتیں عوام کو سمجھ آگئیں ۔ اس دن ہم میں سے کوئی بھی کسی کو کوسے گا۔ نہیں، کوئی کسی کو قصور وار نہیں ٹھہراے گا۔ خواہ وہ ڈاکٹر طاہر القادر ی ہو۔ خواہ نواز شریف ۔ خواہ وہ عمران خان ہو۔ خواہ وہ زرادری ۔ خواہ وہ سراج الحق ہو۔ خواہ وہ راحیل شریف ہو۔ یا کوئی اور بس جس دن ہمیں یہ پتہ چل گیا کہ ہم اپنی امانتیں ایمانداروں کو دے رہے ہیں۔ اور یہ واقعی ایماندار ہیں۔ اس دن سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اور اللہ ہم کو اس قابل بنا دے۔ بظاہر وہ بندہ ایسا لگ نہیں رہا تھا۔ مگر اس کی باتوں میں اثر اور سچائی تھی ۔ میں نے پوچھا بابا جی آ پ طاہر القادری کے بندے لگتے ہیں۔ تو وہ ہنس پڑا اوربولا نہیں پیارے میں صرف اور صرف اپنے اللہ کا بندہ ہوں ۔ وہ بھی بن نہیں پا رہا ۔اگر وہی بن جائوں ۔ تو سمجھو کامیاب ہوگیا۔ مگر ہماری بد بختی ہے کہ ہم ہر لیڈر کے ، ہر پارٹی کے بندے کہلوانا پسند کرتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں ۔ خوشی سے پھولے نہیں سماتے مگر ہم اللہ کے بندے بننا پسند نہیں کرتے ۔ جو ہمارا خالق ، مالک اور رازق ہے۔ اس کے بعد بابا جی نے ایک لمبی آہ بھری اور خاموشی کے ساتھ اس محفل کو چھوڑ کر چلے گئے۔