ابتدائی اطلاعات یہ تھیں کہ دسویں جماعت کے طالب علم حسین علی کو اغواء کے بعد قتل کیا گیا اور اس کی نعش گھر کے عقب کھیتوں میں پھینک دی گئی۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس تھانہ صدر کھاریاں جائے وقوعہ پر پہنچی اور شواہد اکٹھے کرنے کے بعد ڈیڈباڈی پوسٹ مارٹم کیلئے ہسپتال منتقل کر دی۔
دورانِ تحقیقات گھر کے سی سی ٹی وی کیمرا چیک کئے گئے تو سارا واقعہ کھل کر سامنے آ گیا۔
موصول ہونیوالی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق متوفی حسین علی گھر کے عقبی ٹیرس پر ٹہل رہا تھا اور سائیڈوں پر لگا جنگلا پھلانگ کر صحن کی طرف جانے کی کوشش میں تھا، جیسے ہی پاؤں نیچے صحن میں لگی ٹف ٹائلز پر لگے تو وہیں چمٹ کر رہ گیا اور کچھ سیکنڈز کے بعد صحن میں زمین پر گر پڑا۔
اطلاعات یہ ہیں کہ متوفی کے والد ڈاکٹر خضر حیات ہسپتال میں ڈیوٹی پر تھے جبکہ بقیہ فیملی بیرون ملک مقیم ہوتی ہے، وقوعہ کے وقت متوفی گھر میں اکیلا تھا۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ گھر کے عقبی صحن میں گھاس کی آبیاری کیلئے پانی کی موٹر چلائی گئی تھی جو کافی دیر تک چلتی رہی اور صحن پانی سے بھر گیا۔
قوی شبہ ہے کہ پانی کی موٹر شارٹ تھی اور پانی کے ذریعے کرنٹ پورے صحن میں پھیل گئی، متوفی حسین علی جب موٹر بند کرنے صحن کی جانب لپکا تو وہیں کرنٹ لگنے سے جانبحق ہوگیا۔
شواہد سامنے آنے کے بعد متوفی حسین علی کے ورثا نے ڈیڈی باڈی کا پوسٹ مارٹم کروانے سے انکار کرتے ہوئے قانونی کاروائی رکوا دی۔