گوادر بندرگاہ سے90کلومیٹر دور ایران اور انڈیا کیا کرنےجا رہے ہیں کیا گوادرخطرے میں ہے؟؟؟

ایران نے چابہار بندرگاہ کے ایک حصے کا آپریشنل کنٹرول انڈیا کے سپرد کرنے کے لیے سنیچر کو ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ایران کے صدر حسن روحانی نے سنیچر کو دلی میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے مذاکرات کے بعد کہا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات مزید گہرے ہوئے ہیں اور دونوں علاقے سے دہشت گردی کا مسئلہ ختم کرنے کے لیے مل کر کام کرنے پر تیار ہیں لیکن دہشت گردی کو کسی مذہب سے منسوب نہیں کیا جانا چاہیے۔دلی سے نامہ نگار سہیل حلیم کے مطابق ایران اور انڈیا نے نو معاہدوں کو حتمی شکل دی ہے جن میں سب سے اہم معاہدہ چابہار بندرگاہ کے بارے میں ہے جو انڈیا کی مدد سے تعمیر کیا جا رہا ہے اور یہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے صرف 90 کلومیٹر دور ہے۔چابہار بندرگاہ میں انڈیا کی خاص دلچسپی ہے کیونکہ اس راستے سے وہ پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست افغانستان پہنچ سکتا ہے۔ انڈیا افغانستان اور ایران نے گذشتہ برس اس سلسلے میں ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ انڈیا نے افغانستان کو گندم سپلائی کرنے کے لیے اس راستے کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے چا بہار بندرگاہ ڈیولپمنٹ پراجیکٹ کے پہلے فيز کا افتتاح کیا
انڈیا سے افغانستان جانے کا آسان اور چھوٹا راستہ تو پاکستان سے گزرتا ہے لیکن فی الحال دونوں ملکوں کے تعلقاتی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ اس راستے سے رسائی ممکن نہیں ہے۔دونوں نے کہا ہے کہ وہ افغانسان میں امن کی بحالیچاہتے ہیں۔ نریندر مودی نے کہا ’ہم افغانستان میں امن و اسحتکام اور خوشحالی لانے کے لیے مل کر کام کریں گے‘۔صدر روحانی کے دورے سے چند ہفتے قبل ہی اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو انڈیا کے دورے پر آئے تھے۔ انڈیا اور اسرائیل ھی ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں اور انڈیا کے لیے دونوں ملکوں سے روابط میں توازن رکھنا ایک چیلنج ہے۔صدر روحانی نے یہ بھی کہا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر مغربی دنیا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس معاہدہ کو مسنوخ کرنا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں اور ایران پر نئی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو انڈیا کے لیے بھی نئی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔حسن روحانی انڈیا کے تین روزہ دورے پر آئے ہوئے تھے جس کا آغاز انھوں نے حیدرآباد سے کیا تھا۔ حیدر آباد میں اپنے خطاب میں انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو متحد ہو جانا چاہیے اور اگر ان میں اختلافات نہ ہوتے تو امریکہ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی کے طور پر تسلیم کرنے کا فیصلہ نہ کرتا۔
ایران کی بندرگاہ چاہ بہار
ایران کی بندرگاہ چاہ بہار پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے صرف 90 کلومیٹر دور ہے
مذاکرات کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا چابہار و ریل کے ذریعے زاہدان سے جوڑنے میں ایران کی مدد کرے گا۔ایران انڈیا کو تیل سپلائی کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں نے توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا لیکن ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ تیل اور گیس فیلڈز کے بارے میں کوئی پیش رفت ہوئی یا نہیں۔انڈیا جنوبی ایران کے اُن آئل فیلڈز سے تیل اور گیس نکالنے کے لیے کانٹریکٹ حاصل کرنا چاہتا ہے جن کی ممکنہ مالیت اربوں ڈالر ہو گی لیکن برسوں سے جاری مذاکرات میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔خیال رہے کہ انڈیا ایران اور افغانستان نے مئی 2016 میں یہ بین الاقوامی راہ داری قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے بعد سے ہی چابہار بندرگاہ پر کام تیزی سے آگے بڑھایا گیا۔انڈیا نے گذشتہ سال چابہار کے راستے امداد کی شکل میں گندم کی ایک قسط افغانستان بھیجی تھی۔ اس نے افغانستان کو 11 لاکھ ٹن گندم امداد کی شکل میں دینے کا وعدہ کیا ہے اور یہ بالکل فری ہے۔واضح رہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی جمعرات کو انڈیا پہنچے تھے۔