اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

873,407FansLike
9,997FollowersFollow
567,700FollowersFollow
188,369SubscribersSubscribe

6 عرب ممالک کا قطرسے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان ،پاکستان بڑی مشکل میں پھنس گیا

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک)سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین، لیبیا اور یمن کی طرف سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کے اعلان کے بعد پاکستان کیلئے بھی ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے کیونکہ نہ صرف پاکستان کے دونوں فریقین کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں بلکہ قطر کے ساتھ گزشتہ برس طے ہونے والے 16 ارب ڈالر مالیت کے ایل این جی گیس معاہدے کے حوالے سے بھی ایک غیر یقینی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے ’’ وائس آف امریکہ ‘‘ کے مطابق 6 عرب ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے اعلان نے پاکستان کو ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے ،گوکہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سعودی سربراہی میں قطر سے ہر قسم کے تعلقات منقطع کرنے کے اقدام میں شامل نہیں ہو گا تاہم پاکستان کی موجودہ حکومت کیلئے یہ بہت مشکل صورت حال ہے کیونکہ اگر وہ قطر کے حمایت کرتا ہے تو سعودی حکمرانوں کے خفا ہونے کا خدشہ ہے، یاد رہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف کو پابند سلاسل کیا تھا تو سعودی عرب نے اُن کی جان بچائی تھی، لہذا اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف کیلئے کوئی واضح پالیسی اختیار کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہو گا۔امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ وزیر اعظم نواز شریف کے گہرے اور ذاتی مراسم قائم ہیں اور پاناما کیس کے سلسلے میں بھی قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے نواز شریف اور اُن کے خاندان کی مدد کرتے ہوئے رقوم کی ترسیل کے سلسلے میں ایک خط فراہم کیا تھا۔ پچھلے دنوں نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سے درخواست کی تھی کہ قطری شہزادے کو ویڈیو لنک کے ذریعے شہادت دینے کی اجازت دی جائے جبکہ اخباری اطلاعات کے مطابق قطری شہزادے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُنہیں افسوس ہے کہ ذاتی مصروفیات کی بنا پر وہ اسلام آباد آ کر شہادت دینے سے قاصر ہیں۔دوسری طرف اس سے قبل پاکستانی حکومت نے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی سربراہی میں بننے والے 39 اسلامی ملکوں کی اتحادی فوج کا سربراہ مقرر کرنے کی اجازت دی تھی، ایران نے اس اقدام پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اتحاد ایک اسلامی اتحاد کے بجائے سنی اتحاد دکھائی دیتا ہے جو ایران کی مخالفت میں تشکیل دیا گیا ہے۔پاکستان کو اس لئے بھی ایک مشکل صورت حال کا سامنا ہے کیونکہ پہلے ہی سے بھارت اور افغانستان کے ساتھ انتہائی کشیدہ تعلقات کے ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ روابط بھی بحرانی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان میں پہلے ہی بہت سے حلقے مربوط خارجہ پالیسی کے فقدان کے حوالے سے نواز شریف حکومت پر تنقید کرتے آئے ہیں۔ لہذا یقینی طور پر قطر اور سعودی عرب کا یہ بحران نواز شریف کے لئے ذاتی اور حکومتی دونوں سطح پر ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ اد رہے کہ قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے والے ممالک نے الزام لگایا ہے کہ قطر ایران کے ساتھ ملکر انتہاپسند تنظیموں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔دوسری طرف قطر نے اس الزام کی صحت سے انکار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ اگر اُس کے ہمسایہ ممالک کسی بد گمانی کا شکار ہو گئے ہیں تو یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے، قطر کا کہنا ہے کہ صرف چند ہی روز قبل گلف کواپریٹو کونسل کا اجلاس ہوا تھا اور اس اجلاس کے دوران کسی بھی عرب ملک کی طرف سے اس بارے میں کوئی شکایت سامنے نہیں آئی تھی۔اس سے قبل مذکورہ 6 ممالک نے نہ صرف سفارتی تعلقات منقطع کر لئے ہیں بلکہ قطر کے ساتھ تمام تر زمینی اور فضائی رابطے بھی توڑ لئے ہیں جس سے 550 پاکستانیوں سمیت بہت سے مسافر قطر اور دوہا ہوائی اڈوں پر پھنس کر رہ گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سعودی عرب نے اپنے بینکوں کو یہ ہدایت بھی کی ہے کہ اُن کے پاس موجود تمام تر قطری دینار فوراً فروخت کر دئے جائیں اور مزید نہ خریدے جائیں۔سعودی عرب اور دیگر ممالک نے الزام لگایا ہے کہ قطر القائدہ، داعش اور اخوان المسلمین کی حمایت کرتے ہوئے دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے۔ اُنہوں نے سعودی عرب اور بحرین کے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ایران نواز عسکریت پسندوں کی حمایت کا بھی الزام لگایا ہے۔ اُدھر گذشتہ کچھ ہفتوں کے دوران امریکی ذرائع ابلاغ میں چھپنے والے متعدد مضامین میں بھی قطر پر دہشت گردوں کو مالی امداد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔