ذرا نم ہو تو (عبدالقادر حسن)

جب سے میٹرک کے نتائج کا میں نے اخبار میں پڑھا تو میری فوری کوشش تھی کہ سب سے پہلے ان بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان پر لکھنا ضروری ہے لیکن بیچ میں ملکی حالات میں تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونماء ہو نا شروع ہو گئیںجن کے نتیجہ میں اس وقت تک ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی اور ہم کسی حکومت کے بغیر ہی چل رہے ہیں، خیرحالات تو پہلے بھی کچھ ایسے ہی تھے کہ حکومت عملاً معطل تھی اور ملکی معامالات جوں کے توں کی نہج پر پہنچ چکے تھے ۔
اب جب کہ حکومت ایک بھائی سے دوسرے بھائی کو منتقل ہو رہی ہے اس کے بعد بھی سیاسی حالات میںبہتری کے امکانات محدود ہی نظر آتے ہیں کہ اپوزیشن نے میری پسندیدہ شخصیت شہباز شریف کے بارے میں بھی اپنی توپوں کے منہ کھول دیے ہیں اور ان کے ساتھ بھی اسی سلوک کی نوید سنائی ہے جو کبھی ان کے بھائی نواز شریف کے خلاف تھی۔ میں تو ویسے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کے فیصلے کے ہی خلاف ہوں کہ اس سے مجھے مسلم لیگ نواز کے لیے فائدہ کم ہی نظر آرہا ہے اور ایک گناہ بے لذت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
عمر بھر سیاست پر لکھتے رہنے کی وجہ سے ایسا چسکا لگ چکا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی قلم سیاست پر ہی چلنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر اس کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے اور جب رکتا ہے تو پتہ یہ چلتا ہے کہ لکھنا تو کچھ اور تھا لکھا کچھ اورگیا ہے۔
میں نے کالم شروع کیا تھا کہ میٹرک کے نتائج میں طالبعلموں نے حیرت ناک حد تک کامیابی حاصل کی ہے اور ان کے حاصل کردہ نمبر پڑھ کر میں حیران ہی رہ گیا کہ ہماری قوم میں اس حد تک روشن دماغ بچے موجود ہیں جو کہ اتنے نمبر حاصل کرچکے ہیں کہ ٹوٹل نمبر ان کے سامنے ہیچ ہیں اور اگر یہ ٹوٹل کا چکر نہ ہوتا تو شاید وہ اس سے بھی زیادہ نمبر حاصل کر لیتے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہوتی ہے جب میں یہ پڑھتا ہوں کہ کسی غریب کے بچے نے نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی ہے ۔
اس بار بھی میرے ملک کے معمار اور انتہائی نامساعد حالات کے باوجود پڑھنے والے بچوں نے ہی نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اپنے محنت کش والدین کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔ ہمارے اخبار کی خبر کے مطابق شیخوپورہ کے اسامہ اکرام نے سب سے زیادہ نمبر لے کے تاریخ رقم کر دی، وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ لنڈا بازار میں ریڑھی پر پلاسٹک کے برتن فروخت کر کے اپنے تعلیمی اخراجات کے علاوہ اپنے کنبے کی کفالت بھی کر رہے ہیں، اسی طرح علی پور کی بستی کے ایک مزدور کے بیٹے عامر نے بھی پوزیشن حاصل کی ہے۔
عامر روزانہ بیس کلو میٹر کی مسافت طے کر کے سائیکل پر اسکول جاتا ہے جب کہ اس کے والد کراچی میں مزدوری کرتے ہیں اور فیس نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اسے شرمندگی کی وجہ سے اسکول سے چھٹی بھی کرنا پڑتی ہے۔ لاہور کے رہائشی ریلوے کے ایک ملازم کے بیٹے عمر طارق مقابلے کا امتحان دینا چاہتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس نویں جماعت میںفیس کے لیے پیسے نہیں تھے ۔ مائرہ ظفر کے والد پتوکی کی ایک نرسری میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور بڑے لوگوں کے لیے پھول اگاتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنی تعلیم کے لیے غربت کو کبھی آڑے نہیں دیا مائرہ بھی مقابلے کا امتحان دے کر افسر بننا چاہتی ہیں۔
میرے ملک کے یہ ہونہار بچے جو کم وسائل رکھنے کے باوجود کسی نہ کسی طرح تعلیمی میدان میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ ہی وہ نسل ہے جو آنے والے وقتوں میں پاکستان کی معماری میں ہر اول دستہ ہو گی ۔ یہ کم آمدنی والے بچے جو صرف اپنی قابلیت کے بل بوتے پر نمایاں کامیابیاں سمٹ رہے ہیں، اصل میں یہی وہ امید ہے جو پاکستان کو آگے لے جانے میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کر رہی ہے اور کرے گی کہ انھوں نے زمانے کے گرم و سرد دیکھے ہوئے ہیں اور وہ کوئی ایسی غلطی نہیں کر سکتے جس سے ان کے پاک وطن کو نقصان کااندیشہ ہو۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ ہمیں بطور قوم وطن کے ان معماروں کی آبیاری کرنی ہے ۔ ان کو حوصلہ دینا ہے، ان کی ہمت بڑھانی ہے ، ان کو امید دلانی ہے، ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھنا ہے، ان کو وسائل کی فراہمی میںان کی مدد کر نی ہے تا کہ ان کے اندر بھڑکنے والی علمی پیاس کو مزید جلا بخشی جائے اور ان کی اس پیاس کو کسی اعلیٰ ترین کارکردگی کے حامل عہدے پر پہنچنے تک جاری رکھا جائے تا کہ یہ اپنے مقصد کے حصول سے بھٹک نہ جائیں اور اپنے دکھوں اور اپنی غربت کا بدلہ لے سکیں۔
ہماری حکومت نے تعلیم کے میدان میں ابھی وہ کام نہیں کیا جس سے تعلیم سستی اور عام ہو ۔پنجاب حکومت کی جانب سے دانش اسکولوں کی داغ بیل بھی ڈالی گئی لیکن ان کی تعداد ابھی اس حد تک نہیں پہنچائی جا سکی کہ طلباء کی ایک بڑی تعداد اس سے مستفید ہو سکے اورتعلیم کے سالانہ بجٹ میں اس حد تک اضافہ کیا جائے کہ باقی تمام بجٹ اس کے سامنے ہیچ ہوں اور پھر یہ بجٹ افسر شاہی سے بچا کر اگر ایک سال بھی تعلیم کے میدان میں استعمال کر لیاجائے تو اس کے نتائج حیران کن ہو سکتے ہیں، اس کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کہ صوبے کے ہر ضلعے میں ایک معیاری اسکول و کالج قائم کیا جائے جس میں طلبا کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو داخلے کی سہولت حاصل ہو تا کہ کوئی طالبعلم تعلیمی سہولیات کی کمی کی وجہ سے داخلے سے محروم نہ رہ جائے اوراسے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے کہ یہ نجی تعلیمی ادارے تعلیم تو دیتے ہیں لیکن ان کی ہوشرباء اخراجات ہر کسی کے بس کی بات نہیں، یہ ذمے داری حکومت کو ہی اٹھانی پڑے گی کہ ہر ضلعے میں جب ایک معیاری تعلیمی سہولت موجود ہو گی تو خاص طور پر کم وسائل رکھنے والے طلباء اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی تعلیمی پیاس کو ٹھنڈا کر سکیں گے۔
بات صرف احساس کی ہے اور یہ احساس کوئی باہر سے آکر نہیں کرے گا، یہ ہمیں خود کرنا ہے، ان نوجوان ذہنوں کو جلا ہمیں خود دینی ہے، اس کے لیے اگر بڑے بڑے مخیر حضرات کی ذمے داریا ں لگا دی جائیں کہ وہ سرکاری اسکولوں کالجوں کی وسعت میں اپنا کردار ادا کریں جس سے اسکولوںاورخاص طور پر کالجوں میں نشستوں کی تعداد میں اضافے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ہر سال طلباء کی ایک بڑی تعداد داخلے سے محروم رہ جاتی ہے اور ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکیں اور اپنی تعلیم سے غربت کو شکست دے کر نمایاں کامیابی حاصل کر سکیںلیکن وہ اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھانے میں اپنے وسائل سے شکست کھا جاتے ہیں جو ایک بہت بڑا المیہ ہے اور اس المیے سے نجات صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ حکومتی سطح پر تعلیم کو اولین ترجیح دیتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے کہ یہ قوم بڑی جاندار ہے، بات صرف سمت دکھانے کی ہے۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)