اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

858,628FansLike
9,986FollowersFollow
564,600FollowersFollow
183,255SubscribersSubscribe

سانحہ ساہیوال، آو کہ آنسو بہاتے چلو

’میری پوتی کو لوگ کیا کہیں گے کہ یہ دہشت گرد کی بیٹی ہے؟ یہ کہ میں دہشت گرد کی ماں ہوں؟ آپ میرے گھر آکردیکھو! کیا حال ہے۔ آپ کھاتے ہیں، پیتے ہیں۔ ہم صرف روتے ہیں۔ اب میں رات کو نہ سوتی ہوں نہ دن کو چین آتا ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے، رو رو کے اللہ سے التجا کرتی ہوں۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے جنہوں نے میرے بیٹے کو مارا۔ کیا یہ قانون سکھاتا ہے کہ غریبوں کو جنگل میں لے جاکر ماردو؟ مجھے کچھ نہیں چاہیے، برائے مہربانی میرے بیٹے کے نام سے دہشت گرد کا لیبل ہٹا دیا جائے،‘‘ اس کے بولتے ہی ہال میں سکوت چھا گیا۔ غمزدہ ماحول میں پھر وہ گویا ہوئی، ’’اگر میرا بیٹا دہشت گرد قرار دیا تھا تو مارا کیوں؟ اسے زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا؟ انڈیا کے جاسوس کو زندہ گرفتار کرلیا تو کیا میرے بیٹے کو زندہ نہیں پکڑسکتے تھے؟‘‘

ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں مارے گئے ذیشان کی والدہ کے سوالوں کے جوابات سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے پاس نہ تھے، اور شاید کوئی ان سوالوں کے جواب دینے کی ہمت بھی نہ کرے کیونکہ ہم بنیادی طور پر تماش بین ہیں۔ ڈگڈگی بجتی ہے، تماشا ہوتا ہے، تالیاں بجتی ہیں اور ہم گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ مداری کے اشاروں پر رقصاں یہ جسم سوال تک نہیں پوچھتے کہ ناچنا کب تک ہے اور رقص کیسا ہے؟ مداری جانتا ہے کہ یہ تماشا ختم ہوا تو اس کا روزگار بھی جاتا رہے گا اور اس کی ذات بھی توجہ کی محور نہیں رہے گی۔ ایک کےبعد ایک سانحہ آتا ہے، صف ماتم بچھتی ہے، اہلِ خانہ رو رو کر ہلکان ہوتے ہیں، رشتہ دار، دوست آتے ہیں، مرنے والے کےلیے دعا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ آج کل تو میتوں پر بھی پھول لانے کا رواج بن چکا ہے، لاشوں پر سیلفیاں لینا فیشن بن چکا ہے۔ قبرستان جاتے ہیں تو ہنستے ہیں، یہ نہیں سوچتے کہ ظالم یہ عبرت کی جگہ ہے، تماشا نہیں۔ہماری آنکھوں نے بڑے بڑے سانحات دیکھے، بے گناہ مرتے دیکھے، ان پر جے آئی ٹیز بنیں، کمیشن وجود میں آئے لیکن نتائج سامنے نہیں آئے۔ خروٹ آباد میں حاملہ خواتین کے مرنے کا واقعہ ہو، کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کا انکاؤنٹر ہو، سانحہ اے پی ایس یا لاپتا افراد کا کمیشن ہو، سبھی کی فائلوں پر گرد پڑی ہوئی ہے۔ لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں قتل کیے جانے والے افراد کا نوحہ ہو، ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن ہو، سبھی ’’نامعلوم‘‘ ہیں۔ تحقیقات کرنے والے ادارے وقت مانگتے ہیں، اجلاس کرتے ہیں اور کئی سال تک یہ سلسلہ چلتا ہے… اور فائل بند کردی جاتی ہے۔ ہر بار یہی کہا جاتا ہے کہ ہم شدید مذمت کرتے ہیں، زخمی ہونے والوں کو اتنے لاکھ اور مرنے والوں کی زندگی کی قیمت اتنے لاکھ روپے… کہا جاتا ہے ’’میں قطر سے آکر ذمہ داروں کو سزا دوں گا، آپ اطمینان سے رہیں۔‘‘ کب تک قوم سکون میں رہے؟ اور کتنا سکون اور کتنا انتظار؟ مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا!آخر حمیدہ بیگم جیسی خواتین کو اپنے سوالوں کا جواب کیوں نہیں ملتا؟ ایک سانحے کے بعد دوسرے سانحے کا انتظار کیوں ہوجاتا ہے؟ہمارے نمائندوں کا کردار دیکھو تو اس سے بھی بھیانک ہے۔ غمزدہ افراد کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے مذاق اڑایا جارہا ہے، طرح طرح کی کہانیاں گھڑ کر ساہیوال میں مرنے والوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسی کئی کہانیاں ہمارے ارد گرد گھوم رہی ہیں۔ ہر افسردہ چہرہ اپنے اندر طوفان لیے پھرتا ہے، سوال کرتی نظریں جواب ڈھونڈتی پھرتی ہیں، ووٹ لینے اور دینے والے دونوں پوچھتے پھرتے ہیں: کہاں ہے سستا انصاف، سستی صحت اور تعلیم؟ کہاں ہے وہ خوشحالی جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا؟ کہاں ہیں ہمارے مسیحا جن کےلیے ہم نے نعرے لگائے تھے؟ جنہیں جواب دینا تھا، وہ کرپشن کی ’’ہڈی‘‘ پر لڑ رہے ہیں۔جان کی امان پاؤں تو سچ یہ ہے کہ ہر ناکام آپریشن کے بعد نئے آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈاکٹروں سے غلطی ہوجائے یا لاپروائی سے کوئی آلہ جراحی جسم میں رہ جائے تو دوبارہ جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے۔ اگر جسم ناکارہ ہوجائے تو پوسٹ مارٹم کی ضرورت پڑتی ہے، ناکارہ جسم کی جراحی کرتے وقت تو نہ نشے کی ضرورت اور نہ کسی درد کا خوف ہوتا ہے۔ مریض کشمکش میں ہے کہ یہ پہلی سرجری سمجھے یا آخری۔جیسا کہ پہلے ہوتا ہے، اب بھی ویسا ہی ہوگا۔ سانحہ ساہیوال کا شور تھمتا جارہا ہے، اس کے بعد تو کون میں کون۔ مرنے والے پہلے والوں کی طرح صرف ہندسے بن کر رہ جائیں گے اور قاتل معطل یا جبری ریٹائر ہوجائیں گے۔ تحقیقاتی رپورٹ ضرور مرتب ہو گی لیکن اس کے نتائج سامنے نہیں آئیں گے، اصل قاتلوں کا پتا نہیں چلے گا، لگا ہے موت کا بازار آؤ کہ آنسو بہاتے چلو…