بھار تی جمہوریت کا سیاہ چہرہ عیاں ، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی

مودی حکومت نے خطے کو ایک مرتبہ پھر آگ میں جھونکنے کا ارادہ کر لیا، صدارتی حکم نامے کے ذریعے نیا کالا قانون لاگو کر دیا گیا ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ خصوصی حیثیت ختم کر کے بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا ہے، لداخ کو مقبوضہ کشمیر سے الگ کر دیا گیا۔ کالے قانون کے تحت مقبوضہ کشمیر اور لداخ آج سے بھارتی یونین کا حصہ تصور ہو گا۔ یہ قدم اسرائیلی طرز پر کشمیریوں کو اقلیت میں بدلنے کیلئے اٹھایا گیا ہے۔
اس سے قبل بھارتی پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ امیت شاہ آرٹیکل 35 اے اور 370 منسوخ کرنے کا شوشہ چھیڑا گیا جسے بھارتی پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان نے ماننے سے انکار کر دیا۔ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت کی جانب سے امن و امان کی صورتحال داو پر لگانے پر شدید احتجاج کیا، اپوزیشن رہنماوں نے سپیکر کے ڈائس کا گھیراو کر لیا اور حکومت مخالف نعرے لگائے۔ مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں ہار دیکھتے ہوئے صدارتی حکم نامے کے ذریعے نئے کالے قانون پر عملدرآمد کروا دیا۔
واضح رہے کہ آرٹیکل 35 اے، بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا حصہ تھا جس کے تحت جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دیا گیا تھا۔ آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری مانا جاتا اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتا تھا اور نہ ہی یہاں کی مستقل شہریت حاصل کر سکتا تھا اور نہ ہی ملازمتوں کا حقدار تسلیم کیا جاتا تھا۔ یہی آرٹیکل 35 اے جموں و کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت تھا۔ اسے منسوخ کرنے کا مطلب بھارت کی جانب سے کشمیر کے خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کر دیا گیا ہے۔آرٹیکل 370 کی وجہ سے صرف تین ہی معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس تھے جن میں سیکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی شامل ہیں۔ باقی تمام اختیارات جموں و کشمیر حکومت کے پاس تھے۔ بھارت اب کشمیریوں کی جداگانہ پہچان ختم کرکے متنازعہ علاقے میں غیر کشمیریوں کو لانا چاہتا ہے۔ اس لیے آج تک تمام کشمیری بھارت کے اس نظرئیے کی مذمت کرتے رہے ہیں۔
اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں و کشمیر کے حوالے سے ان قرار دادوں کی رہی سہی اہمیت ختم ہونے کا بھی اندیشہ ہے جن کے مطابق جموں کشمیر کو متنازعہ قرار دیا گیا تھا اور پاکستان اور بھارت کو کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلیے رائےشماری کا ماحول بنا کر دیا جائے۔