اوپن مارکیٹ ریٹس

ہمیں فالو کریں

873,725FansLike
9,998FollowersFollow
567,800FollowersFollow
191,068SubscribersSubscribe

مستقبل کی 10 سواریاں جو بہت کچھ بدل کر رکھ دیں گی

لاہور: (ٹیکنالوجی ڈیسک) خود کار ڈرائیونگ کرنے والی گاڑیوں سے لے کر ہائپر لوپ تک، کمپنیاں ٹرانسپورٹ کی شکل بدلنے میں مصروف ہیں۔ یہاں کچھ ایسے ٹرانسپورٹ سسٹمز اور سواریوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو ابھی تیار ہو رہی ہیں اور سامنے آنے کے بعد زمین پر سفر کرنے کے انداز کو ڈرامائی حد تک بدل کر رکھ دیں گی۔

خود کار ڈرائیونگ کرنے والی گاڑیاںAutomatic carsخود ڈرائیونگ کرنے والی گاڑیاں اب کوئی خواب نہیں بلکہ ان کے تجربات مختلف ممالک میں جاری ہیں۔ متعدد بڑی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اس عزم کا اظہار کر چکی ہیں کہ وہ 2020ء تک انتہائی جدید خود کار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی گاڑیاں مارکیٹ میں لے آئیں گی، جبکہ ایک دہائی تک انہیں مکمل خود کار بنا دیا جائے گا۔ ایسی گاڑیوں کے سامنے آنے سے چند بڑے فوائد بھی انسانوں کو حاصل ہوں گے خاص طور پر تحفظ کے حوالے سے، ماہرین کی پیشگوئی ہے کہ اس طرح کی گاڑیاں ہر سال ہزاروں زندگیاں بچانے کا باعث بنیں گی۔ اسی طرح اینو سینٹر فار ٹرانسپورٹیشن کی ایک تحقیق کے مطابق اگر امریکی شاہراہوں پر نوے فیصد گاڑیاں خود کار ہوں تو حادثات کی سالانہ تعداد ساٹھ لاکھ سے کم ہو کر تیرہ لاکھ تک پہنچ جائے گی جبکہ ہلاکتیں 33 ہزار سے کم ہو کر 11 ہزار تک جا پہنچیں گی۔ تحفظ سے ہٹ کر یہ گاڑیاں لوگوں کو زیادہ فری ٹائم فراہم کریں گی، کاربن کا اخراج بھی کم ہوگا اور جو لوگ گاڑی چلانا نہیں جانتے انہیں بھی گاڑی خرید کر رکھنے میں دشواری نہیں ہوگی۔

اڑن گاڑیاںFlying Cars اڑن گاڑیاں ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں مگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تیاری پر تیزی سے کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ رواں سال جون میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ گوگل کے شریک بانی لیری پیج نے 100 ملین ڈالرز ایک کمپنی زوو ایرو پر لگائے ہیں جو ایک اڑنے والی گاڑی کی ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہے۔ لیری پیج نے ایک اور اڑن گاڑی کو حقیقی شکل پر دینے والی کمپنی کیٹی ہاک پر بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ اگرچہ ابھی ان دونوں کمپنیوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا کام کس حد تک آگے بڑھ چکا ہے مگر اطلاعات ہیں کہ ان کے نمونے تیار ہونے کے قریب ہیں۔ اسی طرح ٹیرافیوگا ایک اور کمپنی ہے جو فلائنگ کار کو تیار کر رہی ہے جسے ٹی ایف ایکس کا نام دیا گیا ہے اور توقع ہے کہ وہ 2025ء تک فضاؤں میں اڑتی نظر آئیں گی۔ یہ گاڑی ٹیک آف، پرواز اور زمین پر چلنے کی صلاحیت رکھتی ہو گی جبکہ اس میں موجود ٹیکنالوجی کی بدولت یہ پانچ سو میل تک سفر کر سکے گی۔ ماہرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی گاڑیاں متعارف ہونے پر دنیا بھر میں ٹریفک جام کا مسئلہ ماضی کا قصہ بن کر رہ جائے گا۔

مسافر ڈرونزPassenger FDrones اڑن گاڑیوں کے برعکس بڑے ڈرونز صرف آسمانوں کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں اور یہ آپ کی توقعات سے پہلے سامنے آ جائیں گے۔ مثال کے طور پر رواں سال جنوری میں ایک چینی ڈرون کمپنی ای ہینگ نے الیکٹرک خود کار ڈرون متعارف کرایا جو ایک مسافر کے ساتھ پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس ڈرون کو ای ہینگ 184 کا نام دیا گیا، جو 4.9 فٹ لمبا، 440 پونڈز وزنی اور 220 پونڈز کے وزن کو لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ طیارہ یا ڈرون مکمل طور پر بجلی کی مدد سے پرواز کرے گا اور 23 منٹ تک ہوا میں 62 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکے گا جبکہ اسے 11 ہزار فٹ کی بلندی تک لے جایا جا سکتا ہے۔ اس ڈرون میں پرواز خود کار ہو گی، جس کے لیے مسافر کو بس سمارٹ فون ایپ میں اپنے مطلوب مقام کا اندراج کرنا ہوگا اور باقی کام ڈرون خود کرے گا۔ ای ہینگ کا کہنا ہے کہ اس ڈرون کی آزمائش رواں سال کے آخر میں امریکی ریاست نویڈا میں کی جائے گی۔

الیکٹرک گاڑیاںElectric Cars الیکٹرک کاریں اب تیزی سے مرکزی دھارے کا حصہ بن رہی ہیں اور بیشتر کمپنیاں مکمل الیکٹرک اور لانگ رینج گاڑی 2020ء تک سامنے لانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔ یہ گاڑیاں بجلی پر چلنے کے باعث کاربن کے اخراج میں تو کمی لانے میں مدد دیں گی ہی اس کے ساتھ ہی یہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے رویے میں بھی تبدیلی لائیں گی اور انہیں توانائی کے متبادل ذرائع پر مزید سرمایہ کاری پر مجبور کریں گی تا کہ بجلی کی طلب کو پورا کیا جا سکے۔ کمپنیوں کے مطابق آئندہ پانچ برسوں میں شمسی توانائی کی پیداوار عروج پر پہہنچ جائے گی، جس کے لیے الیکٹرک کاروں کی طلب اہم کردار ادا کرے گی کیونکہ انہیں چلانے کے لیے بجلی کی جو ضرورت ہوگی۔

الیکٹرک طیارےElectric-Pplanes الیکٹرک گاڑیوں کی طرح برقی طیارے بھی حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ ناسا اور دیگر اہم طیارہ ساز کمپنیاں بجلی کی مدد سے چلنے والے سسٹمز کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اس طرح کے الیکٹرک طیارے کاربن کے اخراج میں مدد دیں گے جبکہ آواز کی آلودگی میں بھی کمی آئے گی۔ رواں سال جون میں ناسا نے مستقبل کے ایسے طیارے کی تیاری کا اعلان کیا تھا جو مکمل طور پر بجلی کی مدد سے پرواز کرے گا، جسے X-57 کا نام دیا گیا ہے۔ اس بیٹری پاور طیارے میں 14 برقی موٹرز ہوں گی اور اس کے پروں کا ڈیزائن بالکل منفرد ہوگا۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق X-57 نامی یہ طیارہ اگلے سال تک پرواز کے لیے تیار ہو جائے گا۔ ناسا کے مطابق بجلی کی مدد سے چلنے والے ایک کمرشل مسافر طیارہ 2035ء تک تیار ہو کر سامنے آ جائے گا۔

مونو ریل سسٹمMono rail system خود کار مونو ریل پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام میں ڈرامائی بہتری لائے گی۔ مونو ریلز جیسے سکائی ٹرین سڑک سے 20 فٹ بلندی پر چلنے اور 155 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہے، اس طرح عام گاڑی میں جو سفر دو گھنٹے میں طے ہوتا ہے وہ اس میں دس منٹ میں طے ہوگا۔ سکائی ٹرین کمپنی اس کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی سسٹم پر کام کر رہی ہے جو مسافروں کے تقاضوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہوگا، جیسے کن اوقات میں مسافروں کو سفر کی ضرورت ہے اور اس دوران ان مونو ریلز کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے گا۔ اس سسٹم کو استعمال کرنے کے لیے لوگوں کو قریبی سٹیشن پر جا کر سکائی ٹرین ایپ پر اپنی مطلوبہ منزل کا اندراج کرنا ہوگا، جس کے بعد ایپ کوئی مخصوص پوڈ مسافر کے لیے متعین کر دے گی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ سکائی ٹرین کے ٹریکس اور سٹیشنز حجم میں چھوٹے ہوں گے اور انہیں کہیں بھی تعمیر کیا جا سکے گا یہاں تک کہ دفاتر کی عمارات اور ائیرپورٹس کے اندر بھی۔ سکائی ٹرین نے رواں سال اعلان کیا تھا کہ وہ 2020ء میں نائیجریا کے دارالحکومت لاگوس میں اپنے پہلے ٹریک کو متعارف کرائے گی مگر وہ دیگر کمپنیوں میں بھی جلد اس مونو ریل سسٹم کو متعارف کرانے کے لیے پرعزم ہے۔

خود کار شٹلAutomatic-Shuttel خود کار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی شٹل دنیا بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بدل کر رکھ دیں گی، یعنی عام ٹیکسی یا بس کی بجائے لوگوں کو خود کار شٹل میں سفر کی سہولت ملے گی جسے وہ اپنے مطلوبہ سٹاپ پر ایک ایپ کی مدد سے بلا سکیں گے۔ اس طرح کی شٹلز کے تجربات متعدد شہروں میں کیے جا رہے ہیں جن میں کئی یورپی شہر قابل ذکر ہے۔ عام طور پر انہیں عام ٹریفک کے ساتھ کسی مخصوص روٹ پر چلایا جاتا ہے۔ ایک فرنچ کمپنی ایزی میل بیشتر ڈرائیور لیس شٹلز کے پیچھے ہیں جنھیں یورپی شہروں میں استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ ایک کمپنی لوکل موٹرز اولی کے نام سے ایسی شٹل تیار کر رہی ہے جسے رواں سال امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں آزمائشی بنیادوں پر چلایا جائے گا۔

خود کار ڈرائیونگ کرنے والی بسیںAutomatic Buses شہروں میں آبادی بڑھنے کے نتیجے میں زیادہ محفوظ اور موثر پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے بیشتر کمپنیاں خود کار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی بسوں کو تیار کرنے پر کام کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر جولائی میں مرسڈیز بینز نے نیم خود کار فیوچر بس کو متعارف کرایا تھا جو ٹریفک لائٹس کو پہچاننے، سرنگوں میں سفر سمیت راہ گیروں اور سائیکل سواروں کو شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مخصوص مواقعوں پر خود ڈرائیو کرکے بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔ مرسڈیز کا دعویٰ ہے کہ اس کی بس ایندھن بچانے کے لیے بھی عام بسوں کے مقابلے میں موثر ہے کیونکہ اس کا خود کار ڈرائیونگ کا سسٹم بریک، ایکسیلیٹر اور گئیرز کو موثر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔ ابھی یہ فیوچر بس 43 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر سکتی ہے اور انہیں صرف بسوں کے لیے مخصوص لینز میں ہی دوڑایا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے انہیں چلانا آسان ہے تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہونے کے بعد یہ زیادہ بہتر خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت سے لیس ہوگی۔

ہائپر لوپ سسٹمزHyperloop مستقبل میں ٹرینوں کی جگہ مسافر پوڈز یا ہائپر لوپ نظر آئیں گے جو سڑکوں کے راستے 500 میل فی گھنٹہ سے بھی زائد کی رفتار سے سفر کر سکیں گے اور لوگ طیاروں کی طرح جلد اپنی منزلوں تک پہنچ سکیں گے۔ چونکہ ہائپر لوپ کا کنٹرول مکمل طور پر خود کار ہوگا لہذا موسم کی خرابی یا آپریٹر کی غلطی کی وجہ سے کبھی تاخیر کا سامنا نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں ہائپر لوپ کو تیار کرنے والی کمپنیوں کا عزم ہے کہ اس کی لاگت ہر ممکن حد تک کم کی جائے گی۔ ان کے بقول ہائپر لوپ پبلک ٹرانسپورٹ کی ایسی قسم ہو گی جو انتہائی کم قیمت ہو گی تا کہ لوگ انہیں دیگر ذرائع کے مقابلے میں ترجیح دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہائی تیز رفتار، بہت زیادہ محفوظ اور توانائی کی بچت کرنے والی یہ ٹرانسپورٹ جتنی سستی وہگی لوگ اسے اتنی ہی زیادہ ترجیح دیں گے۔

دوبارہ استعمال کے قابل راکٹسreuseable-rockets دوبارہ استعمال کی صلاحیت رکھنے والے راکٹس خلائی سفر کو زیادہ قابل رسائی بنا دیں گے، کیونکہ جب ایک راکٹ کو ایک بار سے زیادہ استعمال کیا جا سکے گا تو خلائی پرواز کی لاگت میں نمایاں کمی آئے گی۔ سپیس ایکس اور بلیو اورجن اس طرح کے راکٹس کی تیاری میں تیزی سے پیشرفت کر رہی ہیں۔ آمیزون کے سی ای او جیف بیزوز بلیو اورجن کے بانی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان راکٹس کی تیاری کے بعد لاکھوں افراد خلاء میں کام اور رہائش اختیار کر سکیں گے۔ بلیو اورجن کی جانب سے اب تک دوبارہ استعمال کے قابل راکٹس کو چار بار متعارف اور لینڈ کروایا جا چکا ہے۔ ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس بھی دوبارہ استعمال کے قابل راکٹس کی تیاری میں نمایاں پیشرفت کر چکی ہے جو تیز سفر کے ساتھ ساتھ بلیو اورجن کے راکٹس سے زیادہ بہتر ہیں۔ سپیس ایکس نے چار مختلف راکٹس کی پرواز اور لینڈنگ کے کامیاب تجربات کیے ہیں، جن میں سے تین راکٹس نے سمندر کے درمیان ایک ڈرون شپ پر لینڈنگ کی جبکہ ایک زمین پر اترا۔ ایلون مسک کے مطابق سپیس ایکس ان میں سے ایک راکٹس کو رواں سال ایک بار پھر استعمال کرے گی اور ایک دہائی کے اندر لوگوں کو خلاء میں بھیجے گی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ 2025ء تک مریخ پر لوگوں کو بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے زمین کے پڑوسی سیارے کے لیے کارگو فلائٹس بھیجی جائیں گی جن یں لوگ بھی سوار ہوں گے۔ ان کے بقول زمین سے مریخ کے لیے ہر 26 ماہ میں مہم بھیجی جائے گی، تو ہم پہلی مہم 2018ء اور پھر 2020ء میں بھیجیں گے، جبکہ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق رہا تو 2024ء تک ممکنہ طور پر لوگوں کو بھیجا جائے گا جو 2025ء میں مریخ پر اتریں گے۔